برطانوی شاہی خاندان سے قطع تعلق کرنے والے شہزادہ ہیری کی کتاب نے مارکیٹ میں آتے ہی دھوم مچادی، دکانیں آدھی رات کو ہی کھل گئیں، خریداروں کا رش لگ گیا۔
دنیا کی 15 مختلف زبانوں شائع ہونے والی کتاب میں موجود افغانستان سے متعلق حصّوں پر برطانیہ کے بعض حلقے اور افغانستان کے طالبان حکام کی جانب سے بھی شدید ردّعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پرنس ہیری کی کتاب "اسپیئر” کی بازار میں آنے سے پہلے ہی اس کے چرچے زبان زدعام تھے۔
گزشتہ کئی ماہ تک جاری رہنے والی تشہیری مہم کے بعد بالآخر منگل کو شہزادہ ہیری کی سوانح حیات ’اسپیئر‘ان کے آبائی ملک برطانیہ میں فروخت کے لیے پہنچ گئی ہے، جس سے شاہی خاندان کو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پرنس ہیری کی کتاب کی طلب پوری کرنے کے لئے انگلینڈ کے دارالحکومت لندن کے بُک اسٹال نصف شب ہی کھُل گئے۔
دارالحکومت لندن کے وکٹوریا اسٹیشن کے بُک اسٹال پر کتاب کو جلد از جلد حاصل کرنے کے خواہش مندوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ انگریزی کے علاوہ مزید 15 زبانوں میں شائع ہونے والی یہ کتاب دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ بِک رہی ہے۔
انگلینڈ کے معروف بُک اسٹور ’واٹر اسٹون‘نے کہا ہے کہ پرنس ہیری کی کتاب حالیہ 10 سال میں بھاری ترین پیشگی طلبی پر حاصل کرنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔
واضح رہے کہ 10 جنوری کو اشاعت سے قبل اسپین میں غلطی سے کچھ حصّوں کی اشاعت کے بعد کتاب ذرائع ابلاغ کے لئے موضوعِ بحث بن گئی تھی، سب سے پہلے برطانوی روزنامے ’دی گارڈین‘ نے کتاب کے بعض حصے رائے عامہ کے لئے شائع کئے تھے۔
مذکورہ کتاب میں پرنس ہیری نے اپنے بڑے بھائی شہزادہ ولیم کو ان پر جسمانی تشدد کرنے کا قصور وار ٹھہرایا اور دعویٰ کیا ہے کہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کی وفات کی خبر انہوں نے بی بی سی میں پڑھی۔
انہوں نے کہا ہے کہ اپنی اہلیہ میگھن مارکل سے ملنے سے پہلے وہ متعصب تھے، کتاب کے ایک باب میں پرنس ہیری نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں 25 افراد کو قتل کیا اور انہیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔
خاص طور پر کتاب کے افغانستان سے متعلقہ حصّوں پر خود برطانیہ کے بعض حلقوں کی طرف سے بھی اور افغانستان کے طالبان حکام کی طرف سے بھی سخت ردّعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ شہزاد ہیری کی زندگی پر لکھی گئی کتاب کی اسپین میں فروخت کا آغاز غلطی سے مقررہ وقت سے پہلے ہوگیا، جس کے بعد کتاب کے کچھ اقتباسات آن لائن لیک بھی ہوچکے ہیں۔