تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

سندھ میں آٹا بحران، وزیر اعظم کی ہدایت پر تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دیا

کراچی: سندھ میں گندم اور آٹے کا بحران کیسے پیدا ہوا، یہ جاننے کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر قائم تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر قائم تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دیا، یہ کمیٹی ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں آج سندھ حکومت کے حکام سے ملاقات کرے گی۔

چیف سیکریٹری سندھ سے ملاقات میں سندھ میں آٹا اور گندم کے بحران کی وجوہ جاننے کی کوشش کی جائے گی، کمیٹی گندم کی اسمگلنگ، فلور ملز کے کوٹے اور آٹے کی قیمتوں کا بھی جائزہ لے گی، ذرایع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی 6 فروری کو اپنی تیار کردہ رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔

خیال رہے کہ سندھ میں آٹے کے بحران کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی میں ڈی جی ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے افسران شامل ہیں۔

وزیراعظم کو آٹا بحران سے متعلق رپورٹ بھجوا دی گئی

پانچ دن قبل وزیر اعظم عمران خان کو آٹا بحران سے متعلق ایک اہم رپورٹ بھجوائی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا، 21 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ سیکورٹی اداروں کی جانب سے تیار کی گئی تھی، رپورٹ میں کہا گیا کہ بحران پیدا کرنے میں اداروں کے افسران اور بعض سیاسی شخصیات ملوث ہیں۔

رپورٹ میں آٹا بحران کے ذمہ دار بیوروکریٹس اور سیاسی شخصیات کی نشان دہی بھی کی گئی، کہا گیا کہ محکمہ خوراک پر سیاسی دباؤ اور انتظامی نا اہلی سے آٹا بحران پیدا ہوا، 1550 فی من فروخت ہونے والی گندم 1950 تک منصوبہ بندی سے پہنچایا گیا۔ 2 ماہ قبل مارکیٹ میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی، دسمبر 2019 میں گندم مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی۔

Comments

- Advertisement -