تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

بغاوت کے مقدمے میں شہباز گل کی ضمانت منظور ، رہا کرنے کا حکم

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ شہبازگل کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں شہبازگل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا شہباز گل کی درخواست ضمانت ایڈیشنل سیشن جج نے مسترد کی تھی، مقدمے میں 14 دفعات لگائی گئی ہیں، شہباز گل کیس خارج کرنے کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ آج ضمانت کی درخواست کے ساتھ مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مقرر نہیں، بدنیتی کی بنیاد پر سیاسی بنیادوں پرکیس بنایا گیا، کیس میں تفتیش مکمل ہوچکی پورا کیس ایک اسپیچ کے اردگرد گھومتا ہے۔

سلمان صفدر نے بتایا کہ ایک تقریر پرشہباز گل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ان کے خلاف مقدمے کے اندراج میں بہت سارے سقم موجود ہیں ،

پولیس کی جانب سے بغیر اتھارٹی کے مقدمے کا اندراج غیرقانونی ہے، درخواست گزارسابق وزیراعظم کا معاون خصوصی رہا ہے، درخواست گزار یونیورسٹی پروفیسر رہے، پی ٹی آئی ترجمان رہے۔

عدالت نے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ کیس پر آجائیں اور پہلے ایف آئی آرپڑھ لیں، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہباز گل تحریک انصاف حکومت میں معاون خصوصی تھے، ان کو حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کا چیف آف اسٹاف بنا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے شہبازگل کے وکیل کو سیاسی بات کرنے سےروک دیا اور کہا آپ قانونی نکات پردلائل دیں۔

شہبازگل کےوکیل سلمان صفدرایف آئی آرکامتن پڑھ کرسنایا اور کہا اس پورے کیس میں کارروائی پولیس بہت اہم ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کیا شہبازگل نے یہ ساری باتیں کی تھیں؟ ایک پارٹی ترجمان کے اس بیان کو آپ کس طرح جسٹیفائی کریں گے۔

وکیل ملزم نے کہا کہ مدعی کے اپنے جملوں سے زیادہ انتشار پھیلا ہے، تقریر میں اتنا انتشار نہیں تھا، جتنا مدعی نے خود بنایا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ یہ بتائیں ایف آئی آرمیں لکھی باتیں شہبازگل نے کہی تھیں؟ کیا ان تمام باتوں کا کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟ یہ صرف تقریر نہیں ہے۔

جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہباز گل کی گفتگو کا کچھ حصہ نکال کر سیاق و سباق سے الگ کردیا گیا، شہباز گل نے حکومت اور ایک سیاسی جماعت کی بات کی تھی، اگر یہ نام لکھے جاتے تو واضح ہوجاتا ان کا الزام ن لیگ پر تھا۔

شہباز گل کے وکیل کا کہنا تھا کہ مدعی اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ، اس عدالت کے پاس ایمان مزاری کا کیس آیاآپ نے مقدمہ خارج کیا۔

چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ الگ کیس ہے آپ اپنے کیس کی بات کریں، یہ ٹرانسکرپٹ گفتگو بتاتی ہے سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا، اس تقریر کو دیکھ لیں۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ 11 جرم ایف آئی آر میں شامل کر دئیے مقصد یہ تھا کوئی تو شہباز گل پر لگ جائے گا، ٹرائل کورٹ نے پراسیکیوشن کا کیس ہی ختم کر دیا ، شہبازگل پر 11 دفعات لگا دی گئیں ، جیسے کوئی ڈاکٹر 7 گولیاں دے دے کوئی تو اثر کرے گی،13جرم انہوں نے شامل کئے ٹرائل کورٹ نے پراسیکوشن کوایک نمبر دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہباز گل کے غیر ذمہ دارانہ بیان کوکسی طوربھی جسٹیفائی نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ
شہباز گل پر مقدمہ میں بغاوت کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں، بغاوت کی دفعات نے اس مقدمہ کو بھی متنازع بنا دیا۔

سلمان صفدر نے بتایا کہ شہباز گل کے ریمانڈ کو بہت متنازع بنایا گیا، ٹرائل کورٹ نے کہا 13 میں سے 12 دفعات شہبازگل پر نہیں لگتیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چلیں ایک نمبر تو دیانا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت لی گئی تھی؟ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ
اجازت نہیں لی گئی تھی جبکہ اسپیشل پراسیکوٹر راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ اجازت لی گئی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ شہباز گل گزشتہ حکومت کے ترجمان تھے، جب بغاوت کا مقدمہ کیا گیا ، اس لیے اس میں نا جائیں قانون کی بات کریں۔

وکیل شہباز گل نے کہا کہ حکومت کیسے مخالفین کیخلاف دہشت گردی اور غداری الزامات کا سہارا لے رہی ہے، عدالت غور کرے کہ کیسے مخالفین کیخلاف سنگین مقدمات درج کیے جارہےہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شہباز گل جس حکومت کے ترجمان تھے وہ بھی ایسے سنگین جرائم کیسز کا سہارا لیتی تھی۔

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ یہ مقدمہ کسی اور نے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن نے درج کرایا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں، ایسا نہ کریں، شہباز گل نے جو باتیں کیں وہ غیرمناسب تھیں۔

وکیل شہباز گل کا مزید کہنا تھا کہ بغاوت کے مقدمات بہت سنگین الزامات پر درج کیے جاتے ہیں، بغاوت کی دفعات کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے، بغاوت کا مقدمہ بنانا آسان، اس کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے، شہباز گل 36 دن سے زیرحراست ہیں،وہ اپنے کئے کی پہلے ہی بہت سزا کاٹ چکے ہیں۔

وکیل شہباز گل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے پر پراسیکوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا۔

عدالت نے استفسار کیا کیا 173 کی رپورٹ آپ نے جمع کرائی ؟ اگر ہم سوشل میڈیا پر جائیں تو آدھا پاکستان اندر ہوگا، جس پر اسپیشل پراسیکوٹر نے کہا کہ جب تک اندر نہیں ہوگا ایسے چیزیں ہوتی رہیں گی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اندر ہونےیاچیزوں پر پابندی سے کچھ نہیں ہوتا، بولنا چاہیے تاکہ سب سامنے ہو، ٹرائل کورٹ نے ایک کے علاوہ آپ کے باقی سب دفعات ختم کیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ نے کبھی ٹرائل کورٹ کے اُس آرڈر کو چیلنج کیا؟ اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے آرڈر کو چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آرڈر آپ کیخلاف جائے تو چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بنچ بغاوت کو نہیں مانتا اس کے علاوہ دلائل دیں ،بغاوت کا کیس کو تو یہ عدالت مانتی ہی نہیں۔

عدالت نے پراسکیوٹر سے استفسار کیا یہ بتائیں چیف کمشنر ، وزارت داخلہ کی بغاوت کا کیس بنانے کی منظوری کہاں ہے؟ جس پر پراسکیوٹر نے بتایا کہ تقریر سے اشتعال دلانا بغاوت پر اکسانے کے مترادف ہے، اصل میں بغاوت کا ہو جانا ضروری نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بغاوت پر نا آئیں یہاں جس کی جو مرضی آئے دوسرے کو غدار کہتا ہے ، اس کورٹ نے کہہ دیا غیر ذمہ دارانہ بیان تھا اس کے علاوہ بتائیں؟ قانون میں جو لکھا ہے اس کے مطابق بتائیں کیسے یہ الزام بنتا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ضمانت منظور کی اور فریقین کےدلائل کے بعد احکامات جاری کئے۔

عدالت نے بغاوت کے مقدمے میں شہباز گل کورہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے شہباز گل کو پانچ لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

Comments

- Advertisement -