قلو پطرہ دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں کئی قصّے اور کہانیاں مشہور ہیں۔ اسے داستانوں میں سمیٹا گیا۔ اس کے حُسن، عشق اور پھر موت کو بھی افسانہ بنایا گیا اور شاید رہتی دنیا تک قلو پطرہ اسی طرح ‘زندہ’ رہے۔
قبلِ مسیح کا یہ کردار دنیا بھر میں تاریخ اور افسانوی ادب کا حصّہ ہے جب کہ جدید دور میں قلو پطرہ پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک ڈرامے میں اس کردار کے بارے میں لکھا تھا؛
"قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔ اس کا حُسن کئی انقلابوں، اور خونریزیوں کا باعث ہوا۔ اس ساحرہ کے حُسن و عشق کے قصّے جہاں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں، وہاں تمام دنیا کو معلوم ہیں۔”
"قلو پطرہ مصر کے نالائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی تھی۔ یہ بادشاہ 80 قبل مسیح تک حکمران رہا۔ اپنی سترہ برس کی بیٹی قلوپطرہ کے سر پر اپنا زنگ خوردہ تاج رکھ کر اُس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔”
"ملکۂ مصر قلوپطرہ فاتحوں کی فاتح تھی۔ اس نے جولیس سیزر کو، اس کی موت کے بعد مارک انطونی کو جس کے ہاتھ میں ان دنوں دنیا کی باگ ڈور تھی، اپنے حُسن و جمال سے مسحور کیا۔”
"اس حسین قاتلہ نے انطونی کو تو ہمیشہ کے لیے تباہی کے سیلاب میں بہا دیا۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ انطونی نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ رویّہ سے مجبور ہو کر اس کے بھائی اوکتے ویانوس کی سخت توہین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔ پارتھنیوں پر فتح حاصل کر کے اوکتے ویانوس نے انطونی کے روم کو مکمل طور پر تاراج کرنے کی کوشش کی اور اسکندیہ کی پرانی عظمت کو زبردست دھکا لگایا۔ اس نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ روم کی سلطنت کا اصل حق دار قلوپطرہ اور اس کا بیٹا سیرزین ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر اوکتے ویانوس اور انطونی کی جماعتوں میں جنگ ناگزیر تھی۔ چنانچہ اکتی ایم کے مقام پر ایک معرکہ خیز جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں قلوپطرہ بھی شریک تھی مگر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی اور اسکندریہ میں پناہ لی۔ انطونی شکست کھا کر واپس چلا آیا جہاں اس نے اپنی وفادار فوجوں کو دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کی۔”
"انطونی اور قلوپطرہ اب محسوس کرنے لگے تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ دونوں کے دلوں پر غم و الم کی گھٹائیں چھا گئیں لیکن ایک آرزو ابھی تک ان کے دلوں میں باقی تھی کہ انجام کار ان کا ملاپ ہو جائے۔”
"انطونی لیبیا سے ناامید ہو کر اسکندریہ آیا۔ اس اثنا میں اوکتے ویانوس کی فوجیں اسکندریہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں۔ انطونی نے ایک بار پھر اپنی کھوئی طاقت اور دلیری سے کام لے کر دشمن کا مقابلہ کیا لیکن فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔بالکل تنہا دل میں ہزارو ں حسرتو ں کا خون لیے محل میں آیا تو قاصد نے خبر دی کہ قلوپطرہ نے خو دکشی کر لی۔ یہ دراصل قلوپطرہ کی ایک چال تھی۔ اسے ڈر تھا کہ انطونی اس کی غداری پر خشمگیں ہو گا لیکن قلوپطرہ کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ چال اس کے عاشق پر بہت مہلک اثر کرے گی۔ انطونی دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایک عورت کی محبت اس سے بڑھ گئی۔ چنانچہ جوش میں آکر اس نے اپنے سینے میں تلوار بھونک لی۔”
"جب قلوپطرہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے بڑی منتوں سے اپنے عاشق کو کہلا بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو وہ اس کے پاس چلا آئے۔ چنانچہ انطونی کے ملازم اپنے زخمی آقا کو اُٹھا کر اس عمارت کے دروازے تک آئے جہاں قلو پطرہ نے خود کو چُھپا رکھا تھا۔ قلوپطرہ نے خوف سے دروازہ نہ کھولا۔ ایک کھڑکی سے رسیاں نیچے پھینکی گئیں جن کی مدد سے زخمی انطونی کو کمرے کے اندر لایا گیا۔”
اس افسانوی روداد سے آگے ڈرامہ کے طرز پر مکالمے ہیں جس کے اختتام پر ملکۂ مصر قلوپطرہ کو سانپ ڈس لیتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے۔
زیرِ نظر ادب پارے سعادت حسن کی کتاب بعنوان "جنازے” سے لیے گئے ہیں جو دراصل ریڈیو کے لیے تحریر کردہ ان کے فیچرز پر مشتمل ہے۔ منٹو نے یہ فیچرز مشہور ہستیوں کی موت کے عنوان سے لکھے تھے جن میں قلوپطرہ بھی شامل تھی۔
کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ انطونی کی خودکشی کی خبر سن کر پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ بھی خود کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔ قلوپطرہ کے دور اور اس کی زندگی سے متعلق محققین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اسے بھی صدیوں پرانی داستانوں اور افسانوں نے مشکوک بنادیا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں، قلوپطرہ 30 ویں صدی قبلِ مسیح میں 39 برس کی عمر میں وفات پا گئی تھی۔ وہ مصر کی ملکہ تھی۔
محققین کے مطابق قلوپطرہ سلطنتِ روم میں اقتدار کے جھگڑے میں الجھی رہی اور اس کی موت زہریلے سانپ کے کاٹنے سے ہوئی تھی۔ مشہور ہے کہ اس نے خود کو سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔
شہرۂ آفاق قلوپطرہ فرعون ملکہ تھی جس کے ہوش رُبا حسن نے سلطنتِ روم کے نام ور جرنیلوں کو اپنی ذہانت اور سیاسی تدبّر سے شکست دی، وہ سلطنتِ روم پر قابض ہونا چاہتی تھی۔
اس کے لیے قلوپطرہ نے ہر سازش کی اور ہر موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کے عشق کا پہلا شکار روم کا شہرۂ آفاق حکم راں جولیس سیزر تھا، جو اس عورت کے خاوند سے اس کا ایک جھگڑا نمٹانے کے لیے بطور ثالث مصر آیا تھا، مگر اسے قلوپطرہ نے اپنی زلفوں کا اسیر بنالیا اور اس کی قربت اختیار کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے روم میں قیام پذیر ہوئی۔
جب جولیس سیزر قتل ہوا تو قلوپطرہ نے اس کے نائب جنرل انطونی سے تعلقات استوار کرلیے، مگر اسے بھی دھوکا دیا اور پھر انطونی کی خودکشی کے بعد خود بھی موت کو گلے لگا لیا۔