نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط اس لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں
ڈریٹن نے ایک ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور جھٹک دیا۔ یکایک زمین سے آگ کا ایک بہت بڑا گولا نمودار ہو کر اوپر کی طرف اٹھا۔ آگ کے گولے نے ان دونوں اور باقی افراد کے درمیان ایک دیوار سی کھڑی کر دی۔
’’دیکھ ماسٹر پونڈ، اب میرے اور تمھارے سوا یہاں کوئی نہیں ہے۔‘‘ جیزے ڈریٹن کے منھ سے اپنا اصل نام سن کر حیران ہوا۔
’’کیا ہوا پونڈ، بڑے حیران دکھائی دینے لگے ہو، حیرانی اس بات پر ہے نا کہ میں تمھارا اصل نام کیسے جانتا ہوں۔ میں تمھارے اور تمام بارہ کے ٹولے کے بارے میں جانتا ہوں۔ پہلان مجھے ہر چیز کے بارے میں بتا چکا ہے۔ میرے خیال میں تمھیں یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ جو جادوئی طاقت تمھارے پاس ہے وہ میرے پاس بھی ہے۔‘‘
جیزے نے جواب دیا تو اس کے لہجے میں طنز واضح تھا: ’’منّے، تمھارے جادوئی شعبدے مجھے خوف زدہ نہیں کر سکتے۔ تم اپنے آبا کی طرح بے وقوف ہو۔ اوہو … تو اب حیران ہونے کی باری تمھاری ہے۔ جی ہاں، میں دوگان کو جانتا ہوں، میں نے اس خبیث سے بہت مرتبہ جنگ لڑی ہے۔ لیکن سنو، وہ پھر بھی شکل و صورت سے معقول آدمی تھا تم تو انتہائی نامعقول لگتے ہو، تم نے تو عورتوں کی طرح بالیاں پہنی ہوئی ہیں۔ عورتوں کی طرح لمبے بال چھوڑے ہیں، یقیناً تم لڑتے بھی عورت کی طرح ہو گے۔‘‘
ڈریٹن غصے سے بُھنّا کر بولا: ’’ابھی دکھاتا ہوں کہ میں کیسے لڑتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا قد تین گنا بڑا کر دیا۔ پھر اس نے سر جھکا کر جیزے کی طرف دیکھا تو وہ بونا نظر آ رہا تھا۔ اس نے اپنے بہت بڑے ہاتھ میں اسے پکڑا اور دور اچھال دیا۔ جیزے ہوا میں تیرتا ہوا، درختوں سے ٹکراتا ہوا جھیل کنارے جا گرا۔ وہاں بھڑکتی آگ کے شعلے یک لخت سرد ہو گئے اور صرف جلتی لکڑیاں رہ گئیں۔ ڈریٹن کو اس بات پر شدید غصہ آ رہا تھا کہ وہ جیزے کو جان سے نہیں مار سکتا تھا۔ وہ فوراً نارمل قد میں آ گیا اور درختوں کے جھنڈ میں دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے اسے خیال آیا کہ اب وہ بی اینڈ بی نہیں جا سکتا اس لیے رہائش کے لیے کوئی اور جگہ ڈھونڈنی ہوگی۔ وہ کسی بھی صورت ایک اور رات باہر نہیں گزارنا چاہتا تھا اس لیے ٹاؤن کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک اسے ایک اور خیال آ گیا کہ اس کی ساری رقم تو کمرے ہی میں ہے اس لیے ایلسے کے ہاں ایک بار جانا ضروری ہے۔
ایلسے نے دروازہ کھولا تو ڈریٹن داخل ہو کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ ایلسے بولی: ’’کہاں تھے تم، میں تمھارا ہی انتظار کر رہی تھی!‘‘
’’میں یہاں سے جا رہا ہوں۔‘‘ ڈریٹن چلایا۔
’’آج رات؟‘‘ ایلسے کے منھ سے نکلا۔ ’’نہیں، ابھی، اسی وقت۔‘‘ ڈریٹن نے منھ پھاڑ کر بدتمیزی سے جواب دیا اور کمرے میں جا کر اپنی ہر چیز بیگ میں ٹھونس کر زپ بند کر دی، کمرے سے نکل سیڑھیاں اترنے لگا۔ آخری سیڑھی پر قدم رکھ کر وہ ایک دم رک گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایلسے اور دیگر کئی لوگ آتش دان کے قریب بیٹھ کر چاکلیٹ اور بسکٹ کھا رہے ہیں اور گپ شپ میں مگن ہیں۔ ڈریٹن کی آنکھوں میں شیطانی چمک ابھری۔ اس نے ان کا رخ کیا اور قریب جا کر زور سے کھانس کر سب کو متوجہ کیا۔
’’سنو، میں یہاں سے جا رہا ہوں اس لیے تم سب اپنی اپنی جیبیں میرے اس بیگ میں خالی کر دو۔‘‘ ایلسے یہ سن کر اسپرنگ کی طرح اچھلی: ’’یہ کیا بکواس ہے ڈریٹن!‘‘
لیکن ڈریٹن نے بے رحمی سے اسے دھکا دے کر کرسی میں گرا دیا: ’’چپ رہ بڈھی، منھ بند رکھو اور جلدی سے اپنی جیبیں اور ہینڈ بیگز سے تمام چیزیں نکال کر میرے حوالے کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جوتے سے ایک لمبے چمک دار پھل والا چاقو نکال کر ان کے سامنے لہرایا۔ ’’جلدی کرو، مجھے اس کا استعمال کرنے پر مجبور مت کرو۔ ایلسے پہلی خاتون ہوگی جسے میں زخمی کروں گا اس چاقو سے۔‘‘
ایلسے کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ وہاں موجود مہمانوں نے فوری طور پر اپنی جیبیں خالی کر کے سب کچھ ڈریٹن کے حوالے کر دیا۔ ڈریٹن قہقہے لگاتا وہاں سے نکل گیا۔ پانچ منٹ تک دوڑتے رہنے کے بعد وہ ٹھہر گیا اور سانسیں درست کرنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ اب تک وہ پولیس کو طلب کر چکے ہوں گے اور اس ٹاؤن میں اسے ’مطلوب‘ قرار دیا جا چکا ہوگا۔ ڈریٹن گھروں کے سامنے سے گزرتا ہوا کھڑکیوں سے اندر جھانکتا جا رہا تھا، کہ کوئی گھر خالی مل جائے تو اندر گھس کر آرام کر لے۔ آخر کار راب رائے لین میں اسے ایسا ہی گھر نظر آ گیا۔ کھڑکی کھلی تھی، وہ بہ آسانی اندر کود گیا اور سیدھا ریفریجریٹر کی طرف گیا۔ کھانے پینے کا سامان وافر مقدار میں موجود تھا۔ ٹھونس ٹھونس کر کھانے کے بعد وہ کنگ سائز بیڈ پر گر کر سو گیا۔ اس نے اپنے گندے جوتے بھی اتارنا گوارا نہیں کیا تھا۔
(جاری ہے…)

Comments