تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

اپنے خوف کو دور کرنے کے لیے اس نے جبران سے کہا "مجھے تو یہاں تیتر نظر نہیں آ رہے، کیا تم نے اپنے پاپا کو ٹھیک طرح سے سنا تھا؟”

کشتی ساحل کی ریت سےٹکرانے لگی تو جبران چھلانگ مار کر اترا۔ دانیال بھی اترا۔ دونوں نے کشتی ساحل پر کھینچ لی۔ "میرے پاپا نے کہا کہ تیتر تھے، تو ضرور ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا، لیکن اسے خود بھی کہیں تیتر نظر نہیں آئے۔ "ہو سکتا ہے تیتر خوراک کی تلاش میں اڑ چکے ہوں، اور رات کو آرام کرنے قلعۂ آذر میں واپس آئیں۔”

فیونا نے ساحل پر پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دوسرے جزیرے پر دیکھا، جہاں صنوبر کے درخت نظر آ رہے تھے، لیکن اس کی شاخوں پر نوکیلے پتے نہیں تھے۔”صنوبر کو کیا ہو گیا ہے، لگتا ہے اس کے پتے تیتر کھا گئے۔” یہ کہ کر وہ ہنس پڑی۔

چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

جبران نے اس کے لطیفے پر برا منھ بنا لیا۔ فیونا اور دانیال قلعے کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے۔ قلعے کی دیواریں صدیوں سے ویسی ہی کھڑی تھیں۔ اس کے پتھروں پر مرطوب موسم کی وجہ سے کائی جم چکی تھی۔ وہ جس جزیرے پر کھڑے تھے، اس پر بھی قلعے کے آس پاس صنوبر کے درخت کھڑے تھے لیکن اس کی شاخوں پر بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ فیونا بولی "ان درختوں کو کیا ہوا ہے؟ کہیں یہ آسیب زدہ تو نہیں!” جبران نے اس کی بات دانیال کو سمجھائی تو وہ مسکرانے لگا، اس نے زمین پر اپنی نگاہ جمائی اور بولا "غالباً اس کی وجہ یہ گیلی زمین ہے۔”

پھر وہ تینوں دوڑتے ہوئے قلعے کی دیوار کے پاس آ کر رک گئے۔ دانیال نے قلعے کے پتھروں پر ہاتھ پھیر کر کہا "یہ گرینائٹ سے بنے ہوئے ہیں، اس پر جگہ جگہ سوراخ ہیں جو غالباً کسی حملے کے نتیجے میں بنے ہیں، ایسا لگتا ہے کسی زمانے میں یہاں زبردست جنگ ہوئی ہے۔”

فیونا اس کی ذہانت پر حیران ہو گئی، جبران نے اس سے پوچھا "کیا تمھاری ممی نے اس قلعے کی تاریخ کے حوالے سے کچھ بتایا ہے؟ ان کے خاندان میں کون کون رہتا تھا یہاں؟”

"نہیں، دراصل ممی جب بھی اس کے متعلق کچھ کہتی ہیں تو میں ان کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ میرا خیال ہے کہ تاریخ ایک بیزار کن موضوع ہے۔” اس نے قلعے کی اونچائی کا اندازہ کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ "میرے خیال میں یہ قلعہ تین منزلہ اونچا تو ہوگا۔ دیوار میں کھڑکیاں بھی بنی ہوئی ہیں، شاید ان میں سے حملہ آوروں پر گرم تیل پھینکا جاتا رہا ہو۔” اس نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا "یہ دیکھو، یہ شاید خندق تھی، جس کا اب محض نشان ہی رہ گیا ہے اور اس میں جھاڑیاں اور گھوکرو کے پودے اُگ آئے ہیں۔”

ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ دیوار پر بنی تصاویر کی طرف دلائی جو کہ عجیب قسم کی تھیں۔ فیونا نے ایک جگہ سے پتے ہٹا کر دیکھا۔ وہاں پتھر پر گارگوئل نامی عجیب و غریب جانور کی تصویر کندہ کی گئی تھی۔ فیونا بولی "ذرا دیکھو اسے، اس کی باہر نکلی آنکھوں اور پھولے ہوئے منھ سے ایسا لگتا ہے جیسے اب یہ چیونگم اُگل دے گا۔” جبران گارگوئل کے بارے میں جانتا تھا کہ یہ ایک عجیب الخلقت مخلوق ہے، اور اس کے سر کو پرانے چرچوں کے اوپر دیوار میں لگایا جاتا ہے۔ اس نے کہا "فیونا گھبراؤ نہیں، گارگوئل کا چہرہ ہوتا ہی بد نما ہے۔”

وہ تینوں وہاں سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر موجود دو بڑے ستونوں کے درمیان پہنچ گئے۔ جبران نے کہا "یہاں غالباً قلعے کا دروازہ تھا۔” وہ دروازے سے گزر گئے۔ اندر انھیں ایک قسم کے سدا بہار درخت کی باڑ نظر آئی، جس کی شاخیں ایک دوسرے سے جڑی، اوپر کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی ہیں، جیسے کوئی ہاتھ کی انگلیاں اوپر کی طرف گولائی میں پھیلائے۔ اس کے پتے ہموار اور سوئی جیسے ہوتے ہیں اور اس میں چھوٹا سرخ پھول لگتا ہے۔ جبران انھیں دیکھ کر حیرت سے چلایا "ارے یہ تو بھول بھلیاں ہے۔”

تینوں دوڑ کر اس کی طرف گئے اور دو رویہ درختوں کے درمیان رک گئے۔ فیونا بولی "میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہاں رہنے والوں نے اپنے بچوں کے لیے یہ سدا بہار درخت لگائے تھے۔” اس نے جبران کی طرف دیکھ کر پوچھا "کیا اس کے اندر چلیں؟”

"یہ بھول بھلیاں ہے، کہیں اس کے اندر ہم کھو نہ جائیں۔” جبران جھجکا۔

"گھبراؤ نہیں۔” اس بار دانیال بولا "مزا آئے گا۔ ہم ایک دوسرے کے قریب قریب رہیں گے، لیکن خیال رہے کہ ان درختوں میں کانٹے بہت ہیں، کہیں خود کو زخمی نہ کروا بیٹھو۔”

فیونا نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے، اور پھر تینوں بھول بھلیوں میں داخل ہو گئے۔ درختوں کے درمیان بنی ہوئی پگڈنڈی میں سوکھے پتے اور شاخیں بکھری پڑی تھیں۔ سدا بہار درختوں پر عشق پیچاں کی شاخوں نے چھتیں سی بنا لی تھیں۔ یہ درخت قلعے کی اندرونی دیوار کے ساتھ ساتھ دور تک اُگے ہوئے تھے اور کہیں کہیں ان کی دیوار پندرہ فٹ بلند ہو گئی تھی جن پر عشق پیچاں کی موٹی گول شاخوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے حیرت سے پوچھا "قلعے کی دیواروں کے پاس اندر کی طرف ان درختوں کو اُگانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟”

تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ فیونا نے جواب دیا "شاید انھوں نے باغیچے کو ہواؤں سے بچانے کے لیے یہ اُگائے ہوں۔”

"ٹی وی پر میں نے ایک شو دیکھا تھا، ایک شخص نے یہ سدا بہار درخت جانوروں کی شکل میں تراشے تھے، شاید واقعی یہ بھی بچوں کے لیے اگائے گئے ہوں۔” جبران نے کہا۔ فیونا بولی "ایسا لگتا ہے جیسے یہاں بھوت ہوں۔ تم دونوں کا کیا خیال ہے ان باڑوں میں کسی قسم کی کوئی مخلوق ہو سکتی ہے؟”

جبران نے جلدی سے کہا "ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں کوئی بھوت ووت نہیں۔ یہاں پرندوں کے گھونسلے یا چوہے یا پھر کوئی لومڑی ہو سکتی ہے۔”

وہ راستے پر چلتے چلے جا رہے تھے، اس میں ذرا ذرا دیر بعد موڑ آ رہے تھے۔ وہ اس بھول بھلیاں کے اختتام پر ابھی نہیں پہنچے تھے۔ انھیں اطمینان تھا کہ اپنے قدموں کے نشانات پر وہ واپس جا سکتے ہیں۔ اچانک ان تینوں کے قدم رک گئے۔ ان کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا جس کے سامنے زمین میں کنوئیں جیسا سوراخ بنا تھا، جس پر لکڑی کا دروازہ پڑا تھا۔ جبران تیزی سے آگے بڑھا اور مجسمے سے دھول صاف کرنے لگا، یہ ماربل سے بنایا گیا تھا۔

” یہ کس کا مجسمہ ہے؟” فیونا بڑبڑائی۔

"اس پر لکھا ہے کنگ رالفن۔” جبران نے اعلان کیا۔ دانیال نے پوچھا "یہ کون تھا؟”

"پتا نہیں، شاید ان بادشاہوں میں سے ایک تھا جو اس قلعے میں رہتے تھے، اس کا چہرہ کتنا شان دار ہے۔” جبران نے جواب دیا۔ اس نے تلوار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "مجھے تو یہ تلوار بہت پسند آ گئی ہے۔”

"مجھے یاد دلانا، اس کے بارے میں ممی سے پوچھوں گی۔” فیونا نے کہا اور سوراخ کے ٹوٹے پھوٹے دروازے پر قدم رکھ دیا۔ لکڑی کا دروازہ یکایک تڑخ کر ٹوٹا اور فیونا لڑکھڑا گئی، اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکلی۔ دانیا ل نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے واپس کھینچ لیا۔

"اُف میرے خدا، میری تو جان ہی نکل گئی۔ شکریہ دانی۔” فیونا نے زور زور سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"احتیاط کرو فیونا، یہ تو کسی جگہ کے داخلے کا راستہ لگ رہا ہے۔” جبران نے فکر مندی سے کہا۔

فیونا کے قدم رکھنے کی وجہ سے لکڑی کا ایک حصہ ٹوٹ کر نیچے گر گیا تھا، اس لیے اس میں سوراخ بن گیا۔ دانیال نے پیٹ کے بل لیٹ کر کنوئیں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ اس نے ایک پتھر اٹھا کر اندر پھینکا، پھر اس کی بازگشت سے اندازہ لگایا کہ کنواں کافی گہرا ہے۔ "اس بھول بھلیوں کے درمیان کوئی خفیہ راستہ کیوں بنایا گیا ہے؟” فیونا اس کے گرد احتیاط سے گھومی۔ "اور وہ بھی اس مجسمے کے عین سامنے۔”

"پتا نہیں کیا مقصد تھا اس کا۔” جبران نے کہا ” میرا خیال ہے کہ اب ہمیں یہاں سے واپس جانا چاہیے، یہاں تو ہر طرف یہ لمبی باڑ ہے، جس میں بہ مشکل روشنی نیچے آتی ہے۔ راستہ تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا فیونا، اب تم ہی واپسی کا راستہ ڈھونڈتے ہوئے آگے چلو۔”

فیونا آگے آکر آسمان کی طرف دیکھنے لگی، جہاں ان کے سروں پر بہت اوپر سدا بہار درختوں کی چوٹیاں اور ان پر مارننگ گلوری یعنی عشق پیچاں کی شاخیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ اچانک وہ بولی "ہاں سورج اس طرف ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس طرف مغرب ہے، چلو اس راستے پر چلتے ہیں۔” وہ انھیں لے کر چل پڑی۔ ذرا ہی آگے جا کر انھیں راستے میں پرندوں کے نہانے کے لیے ایک چھوٹا سا ٹب ملا۔ "ارے یہ کتنا پیارا ٹب ہے۔” وہ بولی "لیکن اس میں پانی نہیں ہے، لیکن یہ بہت خوب صورتی سے بنایا گیا ہے، چلو، مجھے یقین ہے اب جلد ہی ہم اس بھول بھلیوں سے نکل جائیں گے۔”

فیونا کا دعویٰ درست تھا، کوئی پانچ منٹ بعد وہ تینوں باہر کھڑے تھے۔ "مزا آگیا۔” فیونا بولی "میں تو ایک بار پھر اس میں جانا چاہوں گی۔”

"چلو باقی قلعہ بھی دیکھتے ہیں۔” دانیال بولا، اور تینوں آگے بڑھے۔ "یہاں ہر طرف مجسمے لگے ہیں، واپسی پر انھیں دیکھیں گے۔” جبران نے کہا ۔

قلعے کے کونوں میں گول ٹاور کھڑے تھے۔ طرز تعمیر سے اندازہ ہوتا تھا جیسے اسے نارمنوں یعنی شمالی فرانس کے حملہ آوروں نے تعمیر کیا ہو۔ چلتے چلتے انھیں لکڑی کا ایک پُل نظر آ گیا جو جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ دانیال اس کے قریب چلا گیا۔ وہاں موٹی موٹی زنجیریں دیکھ کر وہ پُرخیال انداز میں بولا”اس پُل کو ان زنجیروں کے ذریعے اوپر نیچے کیا جاتا تھا، کوئی اس پر چڑھنا مت، کیوں کہ یہ بے حد خستہ ہو چکا ہے۔” وہ احتیاط سے چلتے ہوئے ایک محرابی دروازے کے عین سامنے پہنچ کر رک گئے۔ "کیا ہمیں اندر داخل ہونا چاہیے؟” جبران نے دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں، بلاشبہ، کیا تمھیں ڈر لگ رہا ہے؟” فیونا نے اسے چھیڑا۔ "میں نے تو سنا ہے کہ لڑکے بہادر ہوتے ہیں۔” یہ کہ کر وہ ہنس پڑی۔ محرابی دروازے کے دوسری طرف گھپ اندھیرا تھا۔ فیونا بولی "تو پہلے کون جائے گا اندر؟” یہ کہ کر وہ جبران کی طرف دیکھنے لگی۔

"کیا مطلب…. کیا پہلے میں جاؤں اندر؟” جبران جھجکتے ہوئے بولا۔ "ہاں۔” فیونا شرارت سے مسکرا دی۔

"تو ٹھیک ہے۔” جبران نے طویل سانس کھینچی۔ اس نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور پھر محرابی دروازے میں قدم رکھ دیا۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔

Comments

- Advertisement -