تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

پہاڑ سے نیچے اتر کر فیونا تھکن سے چور ہو کر ایک ٹوٹی ہوئی پتھریلی دیوار پر بیٹھ گئی۔ ’’اب چاہے کچھ بھی ہو، میں تو ان سیڑھیوں پر دوبارہ نہیں چڑھنے والی۔‘‘

’’لیکن اب ہم کیا کریں؟ کیا ہم اس اینٹ کو اپنے ساتھ گیل ٹے لے کر جا سکتے ہیں، تاکہ وہیں پر سیاہ آبسیڈین اس سے نکال سکیں؟‘‘ جبران کی خواہش تھی کہ اب جتنی جلد ہو سکے، انھیں گھر چلنا چاہیے۔

’’نہیں جبران۔‘‘ فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’یہ اصول ہے، ہمیں یہیں پر اسے نکالنا ہوگا، ہمیں اسی زمین پر اس قیمتی پتھر کو ہاتھ میں لینا ہے۔‘‘

’’آبسیڈین ایک پتھر ہے یا زیور؟‘‘ دانیال نے اینٹ ہاتھ میں لے کر پوچھا۔ فیونا نے جواب دیا: ’’دراصل یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن کسی زیور سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

’’تو اب اسے توڑیں گے کیسے؟‘‘ دانیال کے سوال نے انھیں ایک بار پھر اس مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا۔ جبران کہنے لگا کہ کوئی بھاری پتھر ڈھونڈ کر اسے اینٹ پر مارا جائے۔ لیکن فیونا کا اعتراض تھا کہ اتنا بھاری پتھر ہم کیسے اٹھا سکیں گے، جس سے واقعی یہ اینٹ ٹوٹ سکے، اس لیے کوئی دوسرا طریقہ سوچنا ہوگا۔ تینوں اپنے اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اچانک جبران اچھل پڑا۔ وہ بولا: ’’میرے دماغ میں ایک اور زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر قدیم بازنطینی چرچ ہے، جس کی گنبد نیلے رنگ کی ہے۔ ہم میں سے دو اوپر چڑھ کر اینٹ کو نیچے گرا دیں گے، اور نیچے جو کھڑا ہوگا وہ اس سے قیمتی پتھر نکال لے گا۔‘‘

فیونا کو یہ خیال پسند آ گیا اور اس نے جبران کو شاباشی دی۔ تینوں تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے بازنطینی چرچ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ دانیال نے سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے سوال کیا: ’’اوپر کون جائے گا؟‘‘

’’میں جاؤں گی اوپر، جبران تم بھی ساتھ چلو۔ اور دانی تم یہاں نیچے ٹھہرنا۔ تم نے پتھر فوراً اپنے قبضے میں لینا ہے، اور کسی کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دینا۔‘‘ فیونا نے کہا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

دانیال نے اینٹ جبران کے حوالے کر دی۔ دونوں اندر داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دانیال چرچ کے ساتھ تنہا کھڑا رہا۔ اس نے قصبے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ یہ بہت خوب صورت ساحلی قصبہ تھا، سمندر کے کنارے سورج کی روشنی پانی پر منعکس ہو رہی تھی، جس سے ایک حسین منظر تخلیق ہو رہا تھا۔ ایک شخص کنارے کی طرف آرہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ایک بہت بڑا آکٹوپس تھا جس کی ٹانگیں ریت کو چھو رہی تھیں۔ دانیال آس پاس کے نظارے میں مگن تھا کہ اسے فیونا کی آواز سنائی دی: ’’دانی تم کہاں ہو؟‘‘

دانیال دیوار کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گیا۔ اس نے اوپر دیکھا، ایک کھڑکی سے فیونا اور جبران کے سر باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔ ’’پیچھو ہٹو دانی، میں اسے نیچے پھینکنے والا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا اور اینٹ ہاتھ سے چھوڑ دی۔ اینٹ زمین سے ٹکراتے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ دانیال نے جلدی سے ٹکڑے ادھر ادھر ہٹائے اور پھر اسے قیمتی پتھر نظر آ گیا۔

’’یہ تو بہت خوب صورت ہے۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور پتھر اٹھا لیا۔ یہ دو انچ قطر کا پتھر تھا۔ سورج کی کرنیں اس پر پڑتے ہی پتھر چمکنے لگا۔ وہ اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے جا کر دیکھنے لگا۔ اسے اس کے آر پار دکھائی دینے لگا۔ یہ پتھر بالکل شیشے کی مانند تھا۔ اسی وقت فیونا اور جبران دوڑتے ہوئے باہر آ گئے۔

’’تم نے ڈھونڈ لیا اسے…. اوہ شکر ہے۔‘‘ فیونا اطمینان کی سانس لے کر بولی۔ ’’ذرا دکھاؤ مجھے۔‘‘ دانیال نے پتھر فیونا کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہم خوش قسمت ہیں کہ اس قیمتی پتھر کے گرد صرف دو ہی دام بچھائے گئے تھے۔‘‘ فیونا بول اٹھی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوکا۔ ’’تم نے یہ کہنے میں جلدی دکھا دی ہے‘‘ یہ کہتے ہی جبران ان دونوں کو بازوؤں سے پکڑ کر بڑی تیزی سے وہاں سے کھینچا جہاں وہ کھڑے تھے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ فیونا گھبرا گئی۔

’’وہ دیکھو۔‘‘ جبران نے زمین پر بکھرے اینٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ارے … یہ … یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ فیونا اور دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو آگئیں۔ اینٹ کے ٹکڑے مائع ہو کر بہنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے مائع ٹکڑے مل کر ایک شکل کو ترتیب دینے لگے۔ فیونا نے خوف زدہ ہو کر قیمتی پتھر جیب میں رکھ دیا اور بڑبڑانے لگی کہ یہ کیا بن رہا ہے۔ اگلے لمحے تینوں کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ وہ اپنے سامنے ایک سانپ کی شکل بنتی دیکھ رہے تھے۔ تب فیونا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی، وہ بولی: ’’یہ تو عفریت ہائیڈرا کی شکل بن رہی ہے، جبران تم بار بار اس کا ذکر کر رہے تھے دیکھو اب یہ حقیقت میں بن رہا ہے۔‘‘

پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے شکل کی جسامت بڑھ گئی۔ اس کے سر سے سانپوں کے نو سر نکل آئے، اور ہر سر میں سے پتھر جیسی زبان باہر کی طرف لپکنے لگی، اور انھیں پھنکار کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔

(جاری ہے…)

Comments

- Advertisement -