تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

میگنس نے خاکی سوٹ پہن رکھا تھا، لیکن اب وہ گہرے نیلے میں بدل چکا تھا۔ ٹوپی ہلکے نیلے رنگ کی ہو گئی تھی اور یہی رنگ جوتوں کا تھا۔ اس کی آنکھیں قمقموں کی طرح چمک اٹھی تھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ تینوں جہاں کھڑے تھے، وہیں بت بن کر کھڑے رہ گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے سامنے ایک زندہ بھتنا کھڑا ہے۔ جبران کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’تت … تت … تم سچ مچ بھتنے ہو؟‘‘

فیونا بھی یہ دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا گئی تھی: ’’تت … تم … تو بالکل نیلے گلیشیئر کی طرح چمک رہے ہو۔‘‘

بھتنا بولا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ نہیں آئے ہو، اور میں ہیمے میں ٹرالز کے بارے میں بھی جانتا ہوں، میں نے تم تینوں کی نگرانی کے لیے اپنی ننھی دوست انیکا کو بھیجا تھا۔‘‘

تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اوہ … تو وہ انیکا تھی، جس نے ہماری مدد کی تھی۔ وہ دھن بھی انیکا کی تھی اور پفن پرندوں کو بھی اس نے ہمارے ساتھ بھیجا۔‘‘

میگنس نے پراسرا مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ’’واؤ … یہ سب کتنا شان دار لگ رہا ہے۔ میں یہاں آئس لینڈ میں کھڑا ایک بھتنے سے بات کر رہا ہوں۔ میں اس سے قبل کبھی کسی بھتنے سے نہیں ملا۔ دراصل مجھے ان کے وجود پر یقین ہی نہیں تھا۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا۔ اس کے بعد تینوں نے باری باری میگنس بھتنے سے مصافحہ کیا، فیونا نے کہا کہ چھوٹی سے روشنی پری کو ہماری مدد کرنے پر شکریہ کہہ دینا، اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میگنس نے کہا: ’’آئس لینڈ ایک جادوئی جگہ ہے۔ یہاں بھتنے، بونے، پریاں اور حتیٰ کہ ٹرالز بھی ہیں۔ اکثر ٹرالز اپنے آپ میں گم رہتے ہیں لیکن وہ والے دراصل شیطان کے زیر اثر تھے۔‘‘

ایسے میں جبران نے اس کے عجیب جوتوں پر ایک نظر ڈال کر پوچھا: ’’کیا میگنس آپ کا اصل نام ہے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ بھتنے نے جواب دیا کہ اس کا اصل نام تھوری ہیلا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہاں کے لوگ جان گئے کہ میں بھتنا ہوں تو مجھے کبھی بھی کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی لمحے ہلکی سی روشنی اس کے گرد جھلملانے لگی۔ وہ چونک کر بولا: ’’اوہ… انیکا… تم عین وقت پر آ گئی ہو، دیکھو تمھارے دوست رخصت ہو رہے ہیں یہاں سے۔‘‘

اگلے لمحے ان کے سامنے ایک ننھی سی ہلکی نیلی پری نمودار ہو گئی، ظاہر ہے کہ اس کے دو پر تھے اور اس کے بال سنہری تھے۔ دانیال بول اٹھا: ’’اس پری کی آنکھیں بھی تمھاری طرح نیلی ہیں۔‘‘

’’ہاں یہی تو ہماری پہچان ہے۔ ہم انسانوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔‘‘ بھتنا مسکرا کر بولا۔

’’ہیلو انیکا …‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ انیکا فوراً بھتنے کے پیچھے چھپ گئی۔ میگنس بولا: ’’روشنی کی پریوں کو کبھی مت چھونا، ورنہ جل جاؤ گی، اچھا اب میں اپنے کام پر جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پہلے والے لباس میں آ گیا۔ تینوں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے۔ میگنس نے جاتے جاتے ہانک لگائی: ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘

وہ تینوں سڑک پر آ گئے، اور نیلی جھیل کے لیے بس پکڑ لی۔ جھیل کا پانی گہرا نیلا تھا، اوپر سے ٹھنڈا لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں خاصا گرم تھا اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کی حرارت ایک سو چار فارن ہائٹ تھی۔ دراصل اس میں ایک میل گہرائی میں بجلی پیدا کرنے والے پمپ لگے ہوئے تھے۔ وہ پمپ سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کر کے باقی پانی کو جھیل میں چھوڑ دیتے تھے۔ تینوں اس میں نہانے کے بعد پھر بس میں بیٹھ کر ٹاؤن پہنچ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر آئس لینڈ کی کرنسی تبدیل کروا لی اور پھر ان ہی پہاڑیوں کی طرف چل دیے جہاں وہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئے تھے۔ تینوں عین اسی مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ وہ خاموشی سے آئس لینڈ کو دیکھنے لگے۔

دانیال بولا: ’’مجھے آئس لینڈ بہت یاد آئے گا، خصوصاً پفن اور میگنس۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم آئس لینڈ کے ایک بھتنے کو جانتے ہیں۔‘‘

فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’کیا تم دونوں تیار ہو … ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘

اس کے ساتھ ہی وہ واپسی کا منتر پڑھنے لگی۔ ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘ ان کی سماعتوں سے جبران کی آواز ٹکرائی: ’’الوداع اے آئس لینڈ۔‘‘

لیکن ابھی اس کے منھ سے پورا جملہ ادا نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں ںے خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -