تازہ ترین

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

’’یہاں تو اچھی خاصی بدبو ہے، ٹرال کی بدبو تو یونان کے اُس گدھے سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ دانیال نے چٹکی سے نتھنے بند کر دیے۔ فیونا ایک جگہ رک کر بولی: ’’مرجان یہاں ہے، لاوے کے اندر۔ کیا تم نیچے بیٹھ کر کسی سوراخ کو تلاش کر سکتے ہو؟‘‘ فیونا نے اپنے قدموں کے پاس اشارہ کیا۔ دانیال وہاں پڑے ایک پتھر کے نیچے سرک گیا اور پھر بولا: ’’ہاں یہاں ایک سوراخ ہے جس میں میرا ہاتھ آسانی سے جا سکتا ہے۔‘‘

فیونا پُر جوش ہو کر بولی: ’’ٹھیک ہے دانی، تم جلدی سے وہاں مرجان تلاش کرو۔‘‘

’’میں کسی مہین چیز کو محسوس کر رہا ہوں، میرے خیال میں یہی مرجان ہے۔‘‘ دانیال مسرت بھرے لہجے میں بولا: ’’یہ رہا، میں نے اسے پکڑ لیا۔‘‘ عین اسی وقت غار میں زلزلہ آ گیا اور غار کی چھت سے لاوے کے ٹکڑے ٹوٹ کر نیچے گرے۔ فیونا گھبرا کر چلائی: ’’یہ کیا ہو رہا ہے … مم میرا خیال ہے کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ دانی جلدی سے ہاتھ کھینچ لو، ہمیں خود کو محفوظ جگہ چھپانا ہوگا۔‘‘

زمین سے ایسی گڑگڑاہٹ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں جیسے کوئی ٹرال غرا رہا ہو۔ غار کا فرش بری طرح لرز رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے لپیٹنے لگا ہو۔

’’ارے فرش کو دیکھو… یہ تو بالکل دھوئیں کی لہریں ہیں۔‘‘ دانیال چیخا۔

زلزلے کی گڑگڑاہٹ اتنی تیز ہو گئی تھی کہ انھیں کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔ یکایک ان سے ذرا فاصلے پر چھت سے لاوے کے ٹکڑوں سے بنا ایک بڑا پتھر گرا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا، اور یہ ٹکڑے نہایت تیزی سے غار میں پھیل گئے۔

’’لیٹ جاؤ دانی، اگر ایک بھی پتھر لگا تو ہم مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور فوراً زمین پر خود کو گرا دیا۔ دانیال نے بھی اس کے پاس ہی پتھریلی زمین پر خود کو گرا دیا۔ دونوں کے چہرے خوف سے زرد ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیرنے لگے تھے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ہو پایا تھا۔ بہادری جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سب ہوا ہو گئی تھی۔ اگلے دس منٹ تک دونوں بازوؤں میں سر چھپائے لیٹے رہے تاکہ لاوے کا کوئی پتھر انھیں نہ لگ جائے۔ پھر آخر کار زلزلہ تھم گیا اور غار دھول سے اٹ گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ اٹھ کر دیکھنے لگے اور پھر کھانسنا شروع کر دیا۔

’’دانی، آگ بجھ گئی ہے۔‘‘ گھپ اندھیرے میں اس کے کانوں سے فیونا کی آواز ٹکرائی۔

اس نے کہا کہ تم جلدی سے مزید آگ بھڑکاؤ، لیکن فیونا کوشش کے باوجود ناکام ہو گئی۔ فیونا کو خیال آیا کہ شاید دھول میں یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ دانیال نے کہا فیونا تم گھبرائی ہوئی ہو بس، ایک بار پھر فوکس کرو۔ فیونا نے ایک بار پھر آگ کے خیال پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور اس بار وہ واقعی کام یاب ہو گئی۔

’’یہ آگ زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس میں ہم مرجان کو تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ فیونا خوش ہو گئی۔ دونوں کا خوف کافی حد تک کم ہو گیا تھا، اور ان میں خود اعتمادی بحال ہونے لگی تھی۔

ایسے میں دانیال نے یاد دلایا: ’’پھندا نمبر دو۔ ایک اور زلزلے میں خود کو مارے بغیر ہم مرجان کیسے حاصل کر سکیں گے؟‘‘

دونوں اگلے ٹریپ کے خیال سے محتاط ہو گئے۔ دانیال نے کہا شاید جبران بھی ہو تو وہ بھی کچھ مدد کر سکے۔ فیونا کو بھی لگا کہ اب جبران کو پہلے ڈھونڈنا ہی بہتر ہے۔ دونوں اس پر متفق ہوئے تو فیونا پچھلی دیوار کی طرف بڑھنے لگی، جہاں اسے ایک سوراخ نظر آیا۔ وہ بولی: ’’ارے یہاں تو بدبو بھی ہے، ضرور ٹرال یہاں سے گزرا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک فلیش لائٹ نکال لی، اور اس کی روشنی میں آگے دیکھنے لگی۔ ’’وہ اسی راستے سے گئے ہیں، وہ دیکھو، جبران کے جوتوں کا ایک تسمہ ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔‘‘ فیونا نے ایک سفید ڈوری پر روشنی ڈالی۔

’’فیونا، یہاں تو اور کوئی سرنگ نہیں ہے، یہ ایک ہی بہت بڑا غار ہے جو مختلف سمتوں مین بٹا ہوا ہے۔ کیا پتا اگلا پھندا یہیں پر ہو اور کیا پتا کہ وہ یہاں ہمارا انتظار کر رہا ہو تاکہ ہمیں ہڑپ کر جائے۔‘‘

’’دانیال، اب تم بھی بالکل جبران کی طرح باتیں کرنے لگے ہو، کیا پتا کیا پتا کی والی باتیں مت کرو، بس اسے ڈھونڈو۔‘‘ فیونا ایک طویل اور اندھی سرنگ میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، لیکن پھر ایک آواز سن کر اس کے قدم رک گئے۔ اس نے دانیال کی طرف دیکھ کر جوش سے کہا: ’’اب جلدی کرو، میں نے ٹرال کی آواز سن لی ہے۔‘‘

دس قدم کے بعد وہ ایک اور بڑے غار کے دہانے پر کھڑے تھے۔ فیونا نے فلیش لائٹ سامنے سے ہٹا دیا، اب اس کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ غار کی چھت میں ایک سوراخ سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی اور سب کچھ نظر آ رہا تھا۔
’’لو، یہاں تو ایک نہیں تین تین ٹرالز ہیں۔‘‘ فیونا بری طرح چونک اٹھی۔

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -