تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا دریائے نیل تاریخی اہمیت کا حامل دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا بھی موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی زد میں ہے اور اس کی وجہ سے دریائے نیل میں شدید اتار چڑھاؤ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوچکا ہے۔ کبھی اس میں اتنا زیادہ پانی ہوتا ہے کہ یہ سیلاب کی صورت باہر آجاتا ہے، اور کبھی اتنا کم کہ خشک سالی کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔

ہر سال دریا کے اوسط بہاؤ میں 10 سے 15 فیصد اضافہ یا کمی ہوجاتی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ معیار بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب ہر سال تغیر گزشتہ برس سے کہیں زیادہ مختلف ہوتا ہے۔

بعض اوقات اس کے بہاؤ میں 50 فیصد کمی یا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

ماہرین کے مطابق اس کا انحصار اس علاقے میں ہونے والی بارشوں پر ہے کہ وہاں کتنی بارشیں ہوئیں، تاہم اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ دریا یا سمندر کے اوپر بننے والے بادلوں کا انحصار بھی دریا یا سمندر کے پانی پر ہی ہوتا ہے، کہ وہ کس نوعیت کے بادل تشکیل دے رہا ہے۔

تحقیق میں شامل میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے، ’یہ کوئی تحقیقاتی جائزہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو رونما ہو رہی ہے۔ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوگیا ہے‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2015 میں جب ایل نینو شروع ہوا تو کم بارشوں کی وجہ سے دریائے نیل میں پانی کی مقدار کم ہوگئی جس سے مصر میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس بار ایل نینو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک جاری رہا۔

یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

اس کے بعد سنہ 2016 میں جب (کمزور) لانینا شروع ہوا تو نیل میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا جس سے دریا بپھر گیا اور اس کے سیلابی پانی نے کروڑوں ڈالر کا نقصان اور 26 افراد کو موت کے منہ میں پہنچا دیا۔

لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

دریائے نیل ہمیشہ سے کئی سیاسی تنازعات کا مرکز بھی رہا ہے لیکن اس کی مہربانیاں قدیم دور سے لے کر اب تک جاری ہیں۔ تاہم اب موجودہ حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دریا مزید کب تک مہربان رہے گا۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -