تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

"فلمی کہانی کیسے لکھی جاتی ہے؟”

کبھی میں نے اس لیے لکھنا شروع کیا تھا کہ مجھے کچھ کہنا تھا معاشرے کے بارے میں، زمانے کے بارے میں، حالات کے بارے میں، خود اپنے بارے میں۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنی تصانیف کے ذریعے معاشرے کے زخموں کو دکھاؤں تاکہ جو لوگ ان پر مرہم لگا سکتے ہیں، وہ لگائیں، یا اُن چھوٹی چھوٹی باتوں کا بیان کروں، جو زندگی کی بڑی بڑی مصیبتیں بن جاتی ہیں۔

پھر میں کتابی زندگی سے نکل کر فلمی زندگی میں آیا اور میں نے محسوس کیا کہ ہر فلم ساز میری طرف ایسے دیکھ رہا ہے جیسے شیش محل میں کوئی کتّا گھس آیا ہو۔ ہر شخص مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ فلمی کہانی اصل میں کیا ہوتی ہے اور کیسے لکھی جاتی ہے۔ کام یاب فلم سازوں کی تقریریں سننا میں گورا کر بھی لیتا، لیکن ان کے چیلے چانٹے، جنھیں فلمی زبان میں ’’چمچے‘‘ کہا جاتا ہے، وہ بھی مجھے سمجھاتے کہ فلمی کہانی اصل میں ایسی ہونی چاہیے، اس میں فلاں فلاں باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہیے۔

میں ان باتوں میں ایسا جکڑ گیا کہ کبھی کبھی سوچنے لگتا کہ ادبی کہانی اور فلمی کہانی اصل میں دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور پھر جب میں نے فلمی کہانیاں لکھیں تو ان پر بھی ویسی ہی نکتہ چینی ہوئی جو ادبی کہانیوں پر ہوتی تھی۔ ان میں بھی وہی جھول نظر آئے جو ادبی کہانیوں میں دکھائی دیتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ فلم ساز مجھے زبان اور لکھنے کا انداز اور جملے بنانا تک سکھانے لگے۔

میں ان کی غلط باتوں پر جھنجھلاتا، آخر ایک بار اُس زمانے کے ایک بہت بڑے فلم ساز سے میں یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا: ’’آپ نے کون سی کتاب لکھی ہے؟‘‘ اور اُس کے بتانے پر کہ اس نے کوئی کتاب نہیں لکھی میں نے کہا: ’’میری تین کتابیں چھپ چکی ہیں اور اُن میں، میں نے کسی ہندوستانی یا غیر ملکی فلم سے کچھ نہیں چرایا ہے۔‘ پھر جو سین وہ مجھ سے سات بار لکھوا چکا تھا، اُسے آٹھویں بار لکھنے کی بجائے کاغذوں کے پُرزے پُرزے کر کے اس کی میز پر پھینک کر چلا آیا۔

ہمارے اسٹوڈیو بہت بڑے اصطبل ہیں۔ ان میں کیمرے اور ساؤنڈ ریکارڈنگ کا سامان پچھلی صدی کا ہے مگر مہنگائی کی وجہ سے ان کا کرایا دگنا ہے۔ پھر انگڑائی لے کر جاگے مزدور اور ان کی یونین ہے۔ صبح کی شفٹ میں کام کرنے والوں کو بھی پروڈیوسر کو دوپہر کا کھانا دینا پڑتا ہے اور شام کی شفٹ میں کام کرنے والوں کو بھی۔ لنچ تو لنچ ہوا ہی، مگر ڈنر بھی لنچ اور بریک فاسٹ بھی لنچ اور پھر نام میں کیا رکھا ہے۔

گلاب کے پھول کو آک کہہ دیجیے تو کیا وہ گلاب نہیں رہتا؟ خاص کر جب لنچ کا مطلب دال روٹی نہ ہو کر صرف پیسا ہوا ور پیسا بھی چھ یا آٹھ گنا۔ فلم کی پوری دنیا ایک اُلٹا استرا ہے جس سے پروڈیوسر کے سر کی حجامت کی جاتی ہے۔ لاکھوں روپے لینے کے باوجود آپ کا ہیرو، کار کے پیڑول کے پیسے نہ مانگے تو وہ بہت اچھا اور مقبول ہیرو مانا جاتا ہے، مگر ڈرائیور کے دس روپے کے بھتّے کے لیے وہ بھی بگڑجاتا ہے۔

پھر اس کی شرطیں کہ میک اپ مین اس کا اپنا ہوگا، مگر اس کی تنخواہ پروڈیوسر کو دینی پڑے گی۔ اسی طرح ہیروئن کو بھی انار، انگور، موسمی کے رس اور بھنے ہوئے مرغ مسلّم کے علاوہ بڑھیا شراب بھی چاہیے۔ اگر کوئی شرط نہیں ہے تو پروڈیوسر کی نہیں۔

جلا بھُنا میں ایک روز بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور پروڈیوسر آگیا۔ وہ جیسے بھول ہی گیا کہ میں اب ادیب نہیں رہا۔ اور کہنے لگا ’’بیدی صاحب، میں ’’چھینا جھپٹی‘‘ نام کی ایک فلم بنا رہا ہوں۔ آپ میرے لیے ڈائیلاگ لکھ دیں گے؟‘‘

’’ضرور لکھ دوں گا، مگر میری ایک شرط ہے۔‘‘

’’بتائیے۔‘‘

’’ہیئر ڈریسر میرا اپنا ہوگا۔‘‘

میں ایک نئی کشمکش میں گرفتار ہو گیا تھا۔ کئی موقعوں پر میں نے دیکھا کہ ہدایت کار اور فلم ساز کی پسند الگ الگ ہے اور وہ ایک دوسرے کے برعکس رائے دیتے ہیں۔ دونوں کو مطمئن کرنے کا جو ایک طریقہ مجھے سوجھا، وہ تھا کہ ایک ہی سین کو دو الگ الگ طریقوں سے لکھوں اور پھر یہ فیصلہ ان دونوں پر چھوڑ دوں کہ انھیں کون سا سین پسند آیا۔

یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک شکایت اندر ہی اندر مجھے پریشان کرنے لگی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے کسی ناشر کے کہنے پر اس کی مرضی کے مطابق لکھا ہو بلکہ میں نے جو کچھ اپنی مرضی سے لکھا، وہی ناشر نے قبول کیا لیکن اب میں مجبور تھا کہ یا تو فلم ساز کی مرضی کے مطابق لکھوں یا فلم کے ہدایت کار کی پسند کو ذہن میں رکھوں۔ مجھے ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہونے لگی۔ اور فلم ساز اور ہدایت کار دونوں ہی کی شکایتیں سننی پڑتیں۔

ان شکایتوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ میں خود ہی ہدایت کار بن جاؤں، لیکن ایسا کوئی فلم ساز نہ ملا جو ایک مکالمہ نگار کو بطور ہدایت کار فلم دینے کو تیار ہو جائے۔ آخر مجبور ہو کر مجھے خود ہی فلم ساز اور ہدایت کار بننا پڑا۔

اب، سب سے پہلا سوال آیا پیسے کا۔ فلم کے لیے پیسا کہاں سے آئے گا؟ آخر کون پیسا دے گا مجھے؟ جب کوئی بھی پیسا دینے والا نہ ملا تو ’’فلم فائنانس کارپوریشن‘‘ کی طرف نظر گئی، جس سے نپی تلی رقم ہی مل سکتی تھی۔

اس رقم کو دھیان میں رکھ کر میری اپنی کہانیوں اور ساتھ ہی اُن ڈراموں پر نظر گئی، جو میں نے کبھی آل انڈیا ریڈیو کے لیے لکھے تھے اور ’’سات کھیل ‘‘کے نام سے شائع ہو چکے تھے۔ اُن ڈراموں میں سے میں نے ’’نقل مکانی‘‘ نامی ڈرامے کو منتخب کر لیا کیوں کہ اُس کے لیے ایک ہی سیٹ کافی ہو سکتا تھا۔

تب میں نے ڈرامے کو فلم کے نقطۂ نظر سے لکھا اور اس پر ’’دستک ‘‘ نامی فلم بنائی۔ اس فلم نے اس سال کی بہترین فلم کا قومی انعام حاصل کیا اور ’’باکس آفس‘‘پر بھی کام یاب رہی۔ اس طرح اُس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ایک ادبی کہانی، فلمی کہانی بھی ہو سکتی ہے اور ایک ادبی ادیب، فلم ہدایت کار بھی بن سکتا ہے۔

(کلیات بیدی کا ایک ورق جس میں نام ور افسانہ نگار، اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار راجندر سنگھ بیدی نے فلم نگری میں اپنے سفر کی یادیں رقم کی ہیں)

Comments

- Advertisement -