یوں تو وطنِ عزیز میں کائنات کا ہر رنگ، ہر نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اور قدرتی حسن میں بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں، کوہ سار، چشمے، جھیلیں، دریا اور سمندر کے علاوہ صحرا، ریگستان اور حسین و سرسبز وادیاں شامل ہیں، مگر یہ خطۂ زمین اپنی تہذیب اور بیش قیمت آثار کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
پاکستان کے قدیم تہذیبی آثار اور تاریخی عمارتوں کی سیر کرنے والا آج بھی انھیں دیکھ کر مبہوت اور دنگ رہ جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں اہم تاریخی اور قدیم دور کی یادگاروں میں کئی قلعے بھی شامل ہیں جنھیں مختلف بادشاہوں، راجاؤں نے تعمیر کروایا اور یہ شان و شوکت اور ان کے دورِ سلطانی کی عظیم نشانیاں ہیں۔
قلعہ رام کوٹ بھی انہی میں سے ایک ہے جو آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کے نزدیک واقع ہے۔ کشمیر کی حسین وادی کے علاقے دینا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک پہنچنے کے لیے کشتی سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ تاہم سیر کے لیے جانے والے جب آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سے قلعے کو سفر کریں تو سڑک کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سولھویں اور سترھویں صدی عیسوی کے درمیان کشمیر کے راجاؤں نے یہاں کئی قلعے تعمیر کروائے تھے اور رام کوٹ بھی اسی دور کی یادگار ہے۔
یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم کیا گیا تھا، جس کے اطراف دریا اور سبزہ ہی سبزہ تھا۔ قلعے کے اندر مختلف کمرے، ہال اور تالاب بھی موجود ہیں اور یہ در و دیوار ماضی کی شان و شوکت کی کہانی سناتے معلوم ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس اہم تاریخی ورثے اور طرزِ تعمیر کے شاہ کار کو حکومت اور انتظامیہ کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے نہ تو دنیا اور مقامی سیاحوں کی توجہ حاصل ہوئی اور نہ ہی اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کا کوئی بہتر اور مناسب انتظام کیا جاسکا۔ ماہرینِ آثار کے مطابق دفاعی اعتبار سے اس قلعے کی تعمیر کا مقام نسبتا بلند اور رسائی کے لحاظ سے پُرپیچ اور دشوار ہے، لیکن اب حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے سفری سہولیات دے اور اس کی مرمت اور دیکھ بھال کرے۔