تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -