تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

رنی کوٹ: پراسرار قلعے سے فسوں خیز تالاب تک ایک یادگار سفر

تحریر: شیر بانو معیز

جولائی کے گرم دن اور مسلسل کام کرنے کی وجہ سے ہونے والی تھکاوٹ نے چڑچڑا اور گویا ہر شے سے بیزار کر دیا تھا۔ ایسے میں‌ واٹس ایپ پر ایک دوست کا پیغام ملا کہ اگر رنی کوٹ کی سیر کرنا چاہیں تو ساتھ چلیے، جمعے کی رات کو روانگی ہے۔ پیغام پڑھ کر کچھ سوچے سمجھے بغیر رضامندی ظاہر کردی اور یوں‌ نو لڑکوں کے اس گروپ میں جن میں‌ سے بیش تر ولاگرز تھے، ایک خاتون بھی شامل ہوگئی اور رنی کوٹ کی سیر کو نکل پڑی۔

رات کے 12 بجے کراچی سے ہمارے سفر کا آغاز ہوا۔ قومی شاہراہ سے انڈس ہائی وے کی راہ لی۔ تاریکی میں دریا پر بنا پل ستاروں کے مانند جھلملاتا محسوس ہورہا تھا۔ ایک موڑ نے ہمارا رخ رنی کوٹ کی جانب پھیر دیا، جہاں سے دنیا کا سب سے بڑا قلعہ صرف تیس کلو میٹر کی مسافت پر تھا۔

کراچی والوں کے لیے رنی کوٹ کا راستہ کچھ زیادہ ناہموار نہیں، لیکن سڑک کے دونوں جانب گھپ اندھیرے کی وجہ سے بہت خوف محسوس ہورہا تھا۔ اس عالم میں جب گروپ کے دیگر اراکین نے بھوت پریت کے قصے کہانیاں شروع کیں تو راستے میں‌ جگہ جگہ ان کرداروں کا عکس دکھائی دینے لگا، مگر ہم بخیریت اپنی منزل پر پہنچ گئے۔

قلعے کے قریب پہنچنے سے پہلے موبائل کے سگنلز آپ کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔ قلعے کے سن گیٹ کے دو بلند و بالا چوکیدار آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ سیکڑوں سال قبل بنے ان چوکیداروں کا رعب اور دبدبہ آج بھی ویسا ہی ہے، یہاں سے میری کوٹ تک کا سفر اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر طے ہوتا ہے۔

صبح پانچ بج کر بیس منٹ پر ہم میری کوٹ کی فصیل پر تھے اور سورج نکلنے کا انتظار کررہے تھے۔ قلعے کی کھڑکیوں سے سورج کو کیمرے میں پکڑنے کی چاہت بھی خوب تھی۔ قلعے کے قریب ہی سندھ ٹور ازم ڈپارٹمنٹ کے خوب صورت ہٹس بنے ہوئے ہیں۔

ناشتے کے بعد فوری طور ہم نے پرین جو تلاؤ (پریوں کا تالاب) کی تلاش شروع کی تاکہ سورج کے جلال سے بچا جائے۔ میری کوٹ سے یہ تالاب ساڑھے چار کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے، دو کلو میٹر تک تو آپ گاڑی ساتھ لے جاسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد گاڑی آپ کو بد دعا دے گی تو ایسی غلطی مت کیجیے گا۔ دو ڈھائی کلو میٹر پیدل کا سفر ایڈونچر سے بھرپور ہے۔ آبشار کے پانی کو جمع کرتا پریوں کا تالاب گھاس پھونس کے جنگل میں چھپا ہوا ہے جسے تلاش کرنا پڑتا ہے۔

ایک گھنٹے تک چلتے چلتے ہمیں ندی نظر آئی جس میں پریاں تھیں! یہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ہیں جو پانی میں پیر ڈالتے ہی اسے ڈیڈ اسکن سے صاف کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ تھک ہار کر ہم اسی مقام پر ٹھہر گئے۔ دل میں ایک پل کے لیے خیال آیا کہ اتنی دور کیا یہ نالہ نما تالاب دیکھنے آئے تھے۔ اسی دوران دو ساتھی جو پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا کہ آبشار تو آگے ہے، آپ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں؟

ہم بھاگے بھاگے پہاڑوں پر چڑھے اور گھاس پھونس میں گم ہو کر ایک تالاب پر پہنچے جہاں تین چھوٹی آبشاریں شور مچا رہی تھیں۔ سبز پانی کا تالاب ایک سمت سے کیرتھر کے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، ایک جانب گھاس نے پتھروں کو ڈھانپا ہوا ہے اور مشرق کی سمت پتھروں سے بہتا ہوا پانی ہے۔ یہ نظارہ واقعی کسی پرستان کا تھا۔ صبح کے دس بجے تھے اور پھر کب دوپہر ہوئی معلوم نہ ہوا۔

تالاب کے فرحت بخش پانی نے دشوار گزار راستوں کی تھکاوٹ دور کردی تھی۔ تالاب کہیں گہرا تو کہیں کائی سے جمے پتھروں سے بھرا ہوا ہے، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ یہاں بھی مچھلیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں اور شروع شروع میں ان مچھلیوں کی خاطر مدارت تنگ کرتی ہے لیکن تھوڑی دیر میں آپ کو اس کی عادت ہوجاتی ہے۔ ایک بجے واپسی کی راہ لی اور ہٹ تک پہنچے جہاں‌ گرما گرم بریانی کھائی اور آرام کیا۔

شام کی چائے کے بعد جب سورج کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو ساڑھے چار بجے موہن گیٹ اور سن گیٹ کی سیر کا ارادہ کیا۔ شیر گڑھ کی فصیل ان تمام نظاروں میں سب سے زیادہ پر کشش ہے۔ یہ بار بار آپ کو سیر کی دعوت دے گی، لیکن جولائی سے ستمبر تک کا موسم شیر گڑھ کی سیر کے لیے مناسب نہیں۔ ہمارے گائیڈ عبدالقادر نے قعلے کی تعمیر سے متعلق مختلف اور مشہور باتیں‌ بتائیں۔

کئی کلو میٹر پر پھیلے اس قلعے کو دنیا کے چند بڑے قلعوں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ کیرتھر کے پہاڑ اس قلعے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس قلعے سے کچھ فاصلے پر سن شہر واقع ہے۔ قلعے کے احاطے میں چالیس سے پینتالیس گھرانے مقیم ہیں جو مقامی گائیڈ عبدالقادر کے رشتے دار ہیں۔ یہاں سولر سسٹم سے بجلی کا بندوبست کیا گیا ہے، پانی کا انتظام ہے، پکے مکان ہیں، بس صرف موبائل کے سنگلنز نہیں آتے لیکن عبدالقادر کے مطابق وہ یہاں کی پرسکون فضا اور ماحول سے مطمئن ہیں۔

جمعے کی رات کو شروع ہونے والا سفر ہفتے کی شام تمام ہوا اور ہم حسین یادیں، صدیوں‌ پرانی تاریخ کے ہزاروں رنگ اور بے شمار خوب صورت عکس اپنی آنکھوں میں‌ سمیٹ کر‌ کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔

Comments

- Advertisement -