تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

برفانی سمندر بھی پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ

پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے سمندروں میں بھی پلاسٹک کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے اور برف سے ڈھکا سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے قطب شمالی کے سمندر کی برف میں بھی پلاسٹک کا کچرا جما ہوا پایا جس کے بعد برفانی سمندر میں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگی کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔

تحقیق میں شامل ماہرین نے آرکٹک سمندر کے 5 مختلف مقامات کا تجزیہ کیا۔ نتیجے کے مطابق اوسطاً ایک لیٹر کی برف میں مختلف جسامت کے 12 ہزار پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اشیا میں مختلف پیکنگ کی تھیلیاں، نائیلون، بحری جہازوں سے جھڑنے والا پینٹ اور پولیسٹر وغیرہ شامل ہیں۔ آرکٹک کے سمندر میں پلاسٹک کی یہ مقدار اس سے قبل پائے جانے والے پلاسٹک کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں 5 کھرب پلاسٹک کی اشیا موجود ہیں۔ ان سب کا اگر وزن کیا جائے تو یہ 2 لاکھ 68 ہزار ٹن بنتا ہے۔

پلاسٹک کے اس تمام کچرے کو اگر ایک قطار میں رکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے گرد 425 تہیں بنا سکتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

خیال رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -