تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول

عظیم روسی ناولز اس بھولی بسری، ششدر کر دینے والی چیز کو پھر ہمارے سامنے لے آتے ہیں، جو اب ناپید ہوگئی، یعنی طویل گفتگو، مسلسل مکالمے، اور  اطمینان سے کسی کو سننا۔

ڈاکٹر عمر میمن

روسی ادب پڑھتے ہوئے اکثر  یوں ہوتا کہ کسی سرائے کے کسی سیلن زدہ کمرے میں ایک کردار دوسرے کردار کو ایک واقعہ سنانے کا اعلان کرتا، مگر جب وہ بات شروع کرتا ہے، تو کسی اور سمت نکل جاتا، اور چلتا چلا جاتا۔

اور یوں ایک کردار کا جملہ ایک سے دو، دو سے تین صفحات پر پھیلتا چلا جاتا ہے، اور تب کہیں جا کر پہلا کردار اسے ٹوکتا۔

ایک ایسے ہی تجربے سے ہم 1900 میں ہنگری میں پیدا ہونے والے معروف فکشن نگار شاندور مارئی کے ناول Embers پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں، جسے ممتاز مترجم ڈاکٹر عمر میمن نے ’’انگارے‘‘ کے زیرعنوان اردو روپ دیا ہے۔

موضوع اور کردار

ناول کا موضوع دو آدمیوں کی دوستی ہے، جو بچپن اور جوانی کے مراحل طے کرنے کے بعد پختہ عمری میں یکدم، عجیب ڈھب سے ٹوٹ جاتی ہے۔

ناول بنیادی طور پر چار کرداروں جنرل، اس کی بیوی، گھر کی ملازمہ اور ایک دوست کے گرد گھومتا ہے، البتہ مرکزی کردار جنرل ہی ہے، باقی کردار کہانی کو پس منظر فراہم کرتے ہیں۔

پلاٹ

شاندور مارئی

پلاٹ دل چسپ ہے، مرکزی کردار جنرل کو ایک روز اپنے اس دوست کی واپسی کی اطلاع ملتی ہے، جو 41 برس قبل بنا کچھ کہے، کوئی خط چھوڑے، بغیر کسی اشارے کے پراسرار ڈھب پر غائب ہوگیا تھا۔

اب وہ دوست کونراڈ لوٹا آیا ہے، جنرل اسے عشائیے پر مدعو کرتا ہے،  جو  جلد ہی ایک مقدمے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس میں جنرل کا دوست ملزم کے طور پر کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ 

اس مقدمے میں ہمارا سامنا بار بار ماضی سے ہوتا ہے، جس میں شکار  گاہ میں رونما ہونے والا ایک واقعہ اور  اسی کمرے میں، جہاں وہ دونوں اب موجود ہیں، شام میں ہونے والی ایک بیٹھک کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ 

جذبہ

بنیادی طور پر یہ ناول دوستی کے جذبے اور اس میں آنے والے نشیب و فراز کو منظر کرتا ہے، البتہ اس میں رقابت، نفرت اور انتقام جیسے جذبات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔

جو احساس ناول پر چھایا ہے، وہ مسلسل انتظار کا احساس ہے، جو برسوں پر محیط تنہائی میں اس نہج پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنا اتاؤلا پن اور بے صبری کھو دیتا ہے۔

اسلوب

ناول کا بڑا حصہ مکالماتی ہے، بلکہ وہ مکمل مکالمہ بھی نہیں، بلکہ ایک شخص یعنی جنرل کا ماضی کو بازیافت کرنے کا عمل ہے، وہ مکالمہ طویل ہے اور متعدد صفحات پر پھیلا ہے، جس کے بڑے حصے میں دوسرا کردار خاموش رہتا ہے۔

ناول میں گفتگو کے دوران ماضی کی لہروں کو مہارت کے ساتھ منظر کیا گیا، کہیں کہیں ہمیں فلیش بیک تکنیک بھی ملتی ہے، مگر مجموعی طور پر مکالمہ غالب ہے۔

قصر کا محل وقوع بیان کرنا، اس کی اندر کی خاموش صورت حال اور منتظر افسردگی کو منظر کرنا مصنف کا کمال تھا۔

حروف آخر

کتاب کا قابل تعریف پہلو مترجم کی وہ گرفت ہے، جس کے ذریعے عمر میمن نے نہ صرف وہ سب کچھ منظر کیا، جو اصل مصنف نے لکھا، بلکہ وہ  بھی گرفت میں لے لیا، جو ان کہا تھا۔

تراکیب وضع کرنے کے کامیاب تجربے کے ذریعے عمر میمن نے اس ناول میں نیا پن پیدا کردیا، جس کی جانب بے بدل فکشن نگار نیر مسعود نے بھی اشارہ کیا۔

یوں ضخیم روسی ناولز کی یاد دلانے والا یہ ناول قاری کے لیے ایک ایسا دل پذیر تجربہ ثابت ہوتا ہے، جو طویل مکالمہ کے باعث کہیں کہیں اکتاہٹ کو بھی جنم دیتا ہے۔ 

ناول شہرزاد کراچی نے شایع کیا، اس کی قیمت 180 روپے ہے۔

Comments

- Advertisement -