تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

کیا آپ افریقہ کی آنکھ کے بارے میں جانتے ہیں؟

شمال مغربی افریقی ملک موریطانیہ میں صحرائے صحارا میں واقع انسانی آنکھ نما ایک دائرہ وہ معمہ ہے جو اب تک سائنسدانوں کو پریشان کیے ہوئے ہے، یہ نیلگوں دائرہ کب اور کیسے وجود میں آیا، سر توڑ کوششوں کے باجود ماہرین اب تک معلوم نہیں کرسکے۔

دنیا کے تیسرے بڑے صحرا صحارا میں واقعہ یہ مقام افریقہ کی آنکھ، صحارا کی آنکھ یا ریچٹ اسٹرکچر کہلاتا ہے۔ اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دائرہ 25 میل رقبے پر محیط اور مختلف اقسام کے پتھروں پر مشتمل ہے۔

اس دائرے کو 1930 سے 1940 کے درمیان پہلی بار دیکھا گیا اور تب سے اب تک اس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات جاری ہیں تاہم تاحال اس کے بننے کی حتمی وجہ پر نہیں پہنچا جاسکا۔

ریچٹ اسٹرکچر کے بننے کے بارے مختلف مفروضات پیش کیے جاتے رہے ہیں تاہم کینیڈا سے تعلق رکھنے والے 2 ماہرین ارضیات نے جو مفروضہ پیش کیا اسے خاصا معتبر مانا جاتا ہے۔

اس مفروضے کے مطابق یہ آنکھ آج سے 10 کروڑ سال پہلے اس وقت بننا شروع ہوئی جب ہماری زمین مختلف براعظموں میں بٹنا شروع ہوئی۔ اس سے قبل ہماری زمین ایک ہی براعظم پر مشتمل تھی۔

جب زمین کی پلیٹس ایک دوسرے سے دور سرکنا شروع ہوئیں اور آج کا براعظم افریقہ اور شمالی امریکا ایک دوسرے سے الگ ہونے لگے تب زمین کی تہہ میں موجود پگھلی ہوئی چٹانیں بیرونی سطح کی طرف آنے لگیں لیکن یہ بالکل زمین کے اوپر نہ آسکیں اور نیچے ہی رک گئیں جس سے پتھریلی سطحوں کا ایک گنبد سا بن گیا۔

اس تمام عمل سے اس گنبد کے بیچوں بیچ اور اس کے ارد گرد فالٹ لائنز بھی پیدا ہوگئیں۔ اس گنبد نے اوپر سطح پر موجود چونے کے پتھروں کو بھی پگھلا دیا جو اس آنکھ کے وسط میں موجود تھے۔

اس طرح اس گنبد کی شکل آنکھ کی طرح بن گئی، اس آنکھ کے دائرے مختلف چٹانوں سے بنے ہوئے ہیں جو مختلف رفتار سے پگھلیں۔

دنیا بھر کے ماہرین کی اس دائرے پر تحقیق اب بھی جاری ہے۔

Comments

- Advertisement -