تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مدت مکمل کرنے والے زید کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ملٹری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آنگ سان سو چی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

تفصیلات کے مطابق برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے زید رعد الحسین جو کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ ہیں ، کہا کہ میانمار کی نوبیل انعام یافتہ وزیراعظم کو اپنی فوج کے مظالم کی توجیہات پیش کرنے کے بجائے ایک بار پھر نظر بند ہوجانا چاہیے تھا ( یاد رہے کہ برمی فوج نے طویل عرصہ انہیں نظر بند رکھا تھا)۔

اقوام متحدہ نے حالیہ دنوں ایک میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم منظم تھے، تاہم میانمار نے اس رپورٹ کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔

بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت پر مبنی ملک کی آرمی پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ برس بدھسٹ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں منظم طریقے سے نسل کشی کی ہے، رپورٹ میں ملک کی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بھی فسادات روکنے میں ناکام رہنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

زید حسین نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’ وہ اس پوزیشن میں تھیں کہ ان حالات کی روک تھام کرتیں لیکن وہ اپنی فوج کی صفائیاں دیتی رہیں۔ کم از کم انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بہتر تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتیں۔ ان کو فوج کا ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ کہنے کی کہ اس معاملے میں غلط معلومات کا پورا آئس برگ ہے اور یہ سب جعلی اور تراشیدہ ہیں۔

ا س کے بجائے انہیں اپنی فوج سے کہنا چاہیے تھاکہ میں اس ملک کی سربراہ ہوں لیکن ایسے حالات میں نہیں رہ سکتی، آپ کا شکریہ ، میں استعفی دے رہی ہوں اور میں ایک بار پھر نظر بندی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔

یاد رہے کہ آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کے معاملے پر تحریک چلانے کےجرم میں سنہ 1989 سے لے کر 2010 تک کل سترہ سال نظر بندی میں گزارے تھے، اس دوران میانمار میں ملٹری کی حکومت تھی۔ سنہ1991 میں نوبیل پرائز کمیٹی نے انہیں امن کا نوبیل انعام دیا تھا، کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان سے یہ ایوارڈ واپس نہیں لیا جائے گا۔

Comments

- Advertisement -