تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

پہلی چورنگی پر لے چلو!

صادقین کی رہائش ناظم آباد کی پہلی چورنگی کے پاس اس جگہ تھی جہاں سے لالو کھیت کو سڑک جاتی ہے۔ چوراہے سے چند قدم کے فاصلے پر سبطین منزل واقع تھی جو صادقین کے والد محترم کے نام پر تھی۔

ان دنوں میں ناظم آباد نمبر ایک میں رہتا تھا اور میرا گھر وہاں سے تھوڑا آگے تھا۔ ہم دونوں اکثر رات کو ایک ساتھ رکشے میں گھر جاتے۔ ہوتا یہ تھا کہ میں صادقین کو سبطین منزل کے پاس اتار کے خود آگے چلا جاتا۔ دو چار بار ایسا بھی ہوا کہ استاد (صادقین) مجھے اپنے گھر کے پاس ہی روک لیتا تھا کہ کچھ دیر باتیں کریں گے۔ ایسے میں، میں رکشے کو چھوڑ دیتا۔ سبطین منزل غالباً تین منزلہ عمارت تھی اور میں صادقین کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کے دوسری منزل جایا کرتا تھا۔

صادقین سے میری ملاقات کبھی کبھی ہوتی تھی۔ خاصا وقفہ بھی درمیان میں آجاتا تھا۔ خاص طور پر ایسے مواقع کم کم ملتے تھے جب ہم دونوں رات کو ایک ساتھ ناظم آباد جاتے۔ جب میں انھیں سبطین منزل چھوڑتا تو کئی بار مجھے بھی روک کر بیٹھنے کو کہا جاتا۔ اور پھر بس باتیں ہوتی تھیں، اِدھر کی، اُدھر کی۔ جوں ہی درمیان میں کہیں ذرا سا توقف ہوتا تو میں غنیمت جان کر جلدی سے کہتا۔
”استاد اب مجھے چلنا چاہیے۔“
مگر جواب ملتا کہ ”اجی کیا جلدی ہے، لیجیے آپ کو ایک چیز دکھاتا ہوں۔“

اس کے بعد کبھی کوئی مخطوطہ، کبھی کوئی خطاطی کا نمونہ، کبھی کوئی اسکیچ، کبھی کوئی خاکہ نکال کے اس تخت پر پھیلا دیا جاتا جس پر ہم بیٹھے ہوتے تھے۔

رات کافی ہونے کی وجہ سے مجھے اٹھنے کی جلدی ہوتی تھی اور صادقین کا کہنا یہ ہوتا تھا:
”ساری قوم سورہی ہے، کم از کم ہم تو جاگتے رہیں۔“

ایک رات تو بڑی دل چسپ بات ہوئی۔ ہفتوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ ادھر کچھ عرصے سے اس کا سینٹرل ہوٹل کی طرف آنا ہی نہیں ہوا تھا۔ ایک تو طبیعت سیلانی قسم کی تھی، کچھ موڈ بھی پل میں کچھ اور پل میں کچھ ہوتا تھا اور پھر جب کام کرنے کا جنون سوار ہوتا تو کہیں آنا جانا تو دور کی بات، کھانے پینے کا ہوش نہ رہتا تھا۔

بہر صورت اس رات استاد کہیں سے گھومتا گھامتا آگیا اور آتے ہی بیٹھنے کی بجائے پوچھا:
”کیا ارادے ہیں؟چلنا ہے یا ابھی آوارہ گردی کرنی ہے؟“
اتفاق سے میں اس وقت گھر کے لیے چلنے ہی والا تھا۔ اس لیے فوراً کہا:
”چلیے استاد چلتے ہیں۔“
ہوٹل سے باہر نکل کے رکشا لیا اور چل دیے۔ جب رکشا ناظم آباد پہلی چورنگی کے پاس پہنچا تو میں نے ڈرائیور سے کہا:
”دائیں ہاتھ لے لو۔“

میں نے اتنا کہا ہی تھا کہ صادقین نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں، سیدھا چلیے!“
مجھے تعجب ہوا کہ آج یہ اپنے گھر کے بجائے کہاں جانے کا قصد ہے؟ وہ بھی اتنی رات گئے؟ میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو مسکراتے ہوئے میرے کندھے تھپکتے ہوئے کہا۔

”آج ہم پہلے آپ کو گھر چھوڑ کے آئیں گے۔“
میرے لیے یہ نئی بات تو تھی مگر سوچا، استاد موڈ میں ہے، چلو یوں ہی سہی۔ وہاں سے ہمارے گھر تک پہنچنے کے لیے سڑکوں اور گلیوں میں تین چار بار دائیں بائیں مڑنا پڑتا تھا اور پھر ہمارا گھر آتا تھا، اس لیے میں رکشے والے کو راستہ بتاتا رہا۔ جب میرا گھر آگیا اور میں رکشے سے اترنے لگا تو استاد نے مجھے بازو سے پکڑ کر پوچھا۔
”آپ کہاں جارہے ہیں؟“
میں نے جواب دیا۔
”میرا گھر آگیا ہے!“
یہ سن کر انگلی سے عینک درست کرتے ہوئے بولا:
”مگر ہم گھر کیسے پہنچیں‌ گے؟ اس گلیارے کی بھول بھلیوں میں تو ہم بھٹک جائیں گے۔“

اب کیا ہوسکتا تھا؟ میں دوبارہ رکشے پر سوار ہوگیا اور رکشے والے سے کہا۔
”پہلی چورنگی پر لے چلو۔“
(ممتاز مصور اور خطاط صادقین سے متعلق معروف صحافی اور ادیب شفیع عقیل کی یادیں)

Comments

- Advertisement -