تازہ ترین

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

صحافت کی مختصرتاریخ‘ قوانین و ضابطہ اخلاق

برصغیر پاک و ہند میں صحافت کا آغاز1780 میں ’ ہکی بنگال گزٹ‘نامی انگریزی اخبار سے ہوا ، تب سے لے کرآج صحافت نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور236 سال کے اس سفر میں ہم نے کئی نامور صحافی بھی پیدا کیے ہیں۔ خبر اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کی لیے یہ تمام تاریخ ایک کتاب میں سمیٹ دی گئی ہے جس نام ’ صحافت کی مختصر تاریخ‘ ہے اور اس کے مصنف سید بدر سعید ہیں۔

صحافت کا وجود قدیم دور میں بھی الہام کی صورت میں موجود تھا ، لیکن الہام سے اخبار کا سفرطے کرنے میں صحافت کو ہزاروں سال کا عرصہ لگا ۔ اس عرصے میں کرہ ارض نے کئی عظیم الشان تاریخی تبدیلیا ں دیکھیں جن کی خبر آنے والے زمانے کے لوگوں کے لیے مختلف ذرائع سے محفوظ کی گئی۔ آج کی ہر لمحہ بدلتی دنیا نے گزشتہ چند سالوں میں صحافت کا انداز بھی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اخبار سے ریڈیو ، پھر ٹی وی اور اس کے بعد آن لائن جرنلزم کا سفر محض چند سالوں میں طے ہوگیا اور آج ہم ذرائع ابلاغ کے تیز ترین دور میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے جہاں ہر شخص ’خبر‘ جاننا‘ چاہتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبر کی ترسیل و ترویج میں حصے دار بھی بننا چاہتا ہے ، ایک ایسی کتاب کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی جو صحافت کےطالب علموں کے لیے بالخصوص اور خبر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بالعموم ایک اہم ماخذ ثابت ہو۔

اس مشکل کام کا بیڑہ سیدبدر سعید نے اٹھایا جو کہ بذات صحافت کے طالب علم ہیں اور پیشہ ور صحافی ہیں، ان کی محنت شاقہ کے نتیجے میں’ صحافت کی مختصر تاریخ‘ کتاب کی صورت میں منظرِ عام پر آئی ہے۔

کتاب لگ بھگ تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی چھپائی بہت عمدہ کاغذ پر نہیں کی گئی جبکہ لکھائی بھی ڈائجسٹ سائز میں کی گئی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ صحافت کی طویل تاریخ اس کتاب میں سما گئی ہے اور اس کی قیمت بھی طلبہ اور عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر نہیں ہے۔

کتاب کے بارے میں

صحافت کی مختصر تاریخ کے ابتدا میں بات صحافت کے آغاز سے کی گئی ہےاور پہلے معلوم قلمی اخبار ’ اکٹا ڈیورنا‘ سے ہوتی ہوئی برصغیر میں چھاپے خانے کی آمسد تک آتی ہے۔ اس دوران میں دنیا کے مختلف حصوں میں صحافت کے سفر کو مختصراً سمیٹا گیا ہے کہ مصنف اپنے اصل موضوع یعنی برصغیر میں صحافت تک آسکیں۔

یہ کتاب صحافت کی تاریخ کے کئی پہلوؤ ں پر روشنی ڈالتی ہے اور ہمارا تعارف برصغیر کے پہلے ایڈیٹر جیمز آگسٹس ہکی سے کراتی ہوئی ہمیں اس خطے کے پہلے شہید صحافی’ مولوی محمد باقر‘ تک لے آتی ہے جو کہ مولانا محمد حسین آزاد کے والد اور ’دہلی اخبار‘ کے مدیر تھے، بعد ازاں اخبار کا نام تبدیل کرکے ’دہلی اردو اخبار‘ کردیا گیا تھا۔ مولوی باقر 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تھے۔

اسی کتاب کے ذریعے ہمیں سرسید احمد خان کے سیدالاخبارسے بھی تعارف حاصل ہوتا ہے اورپھر بات پہنچتی ہے، برصغیر میں انگریزوں کے خلاف جاری سیاسی جدوجہد میں ہندو مسلم اخبارات کے کردار پر، تاریخ کا یہ دور ہم پر ابلاغ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ عوام سے رابطے اور رائے عامہ کو تشکیل دینے میں میڈیا کتنا عظیم کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

پھر اس کے بعد مصنف ہمیں پاکستان کی صحافت سے آشنا کراتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد کس طرح صحافت اپنا ارتقائی سفر آگے بڑھاتی ہے۔ کتاب میں ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن کے قیام سے آنے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور صحافت اور سیاست کے درمیان ہونے والی معرکہ آرائیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

بدر سعید کی اس کاوش میں صحافت کے طالب علموں کے لئے جو سب سے اہم حصہ ہے وہ مختلف ادوار میں ہونے والے قانون سازی اور ضابطہ اخلاق ہے جس سے بدقسمتی سے پاکستان کے بیشتر صحافی نا واقف ہیں اور ان تک رسائی بھی مشکل ہے ۔

آن لائن جرنلزم

صحافت کی مختصر تاریخ اس حوالے سے بھی ایک اہم کتاب ہے کہ اس میں صحافت کے جدید ترین دور یعنی کہ آن لائن صحافت پر کافی گفتگو کی گئی ہے حالانکہ کئی مقامات تشنگی رہ گئی ہے لیکن اتنے سارے ابواب کی موجودگی میں یہ کمی قابلِ رعایت ہے۔

آن لائن جرنلزم اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے لیے حال ہی میں سائبر کرائم بل 2015 کو حکومت کی جانب سے ایکٹ کا درجہ دیا گیا ہے اور بدر سعید نے اس ایکٹ کا احاطہ کرکے کتاب کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے کہ اس موضوع پر اردو زبان میں تاحال قابلِ تشفی مواد موجود نہیں تھاجو کہ ڈیجیٹل میڈیا کے سے متعلق صحافیوں کے لیے کسی سوہانِ روح سے کم نہیں تھا۔

الغرض ’صحافت کی مختصر تاریخ‘ ایک ایسی کتاب ہے جس کی مدد سے صحافت کے طلبہ‘ فیلڈ میں پہلے سے موجود صحافی اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے عمومی قارئین کے لیےخاطر خواہ مواد موجود ہے اور اس کتاب کو پڑھنے میں صرف ہونے والا وقت یقیناً معلومات میں خاطر خوا اضافے کا باعث بنے گا۔

مصنف کے بارے میں

سید بدر سعید ما س کمیونی کیشن ایم فل کرچکے ہیں اور زمانہ طالب علمی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ۔ اس عرصے میں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور مختلف ٹی وی چینلز کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہےہیں۔

بدر سعید اب تک سینکڑوں کی تعداد میں کالم تحریر کرچکےہیں اور ا ے آروائی نیوز سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کے لیے کئی کرائم شوز کی اقساط تحریر کرتے رہیں، جبکہ ریڈیو پاکستان سے بھی بطورا سکرپٹ رائٹر وابستہ رہے ہیں۔

پنجاب یونی ورسٹی سے بی اے آنرز کے دوران ہی ان کی کتاب ’خودکش بمبار کے تعاقب میں‘ منظرِ عام پر آچکی تھی جسے بے پناہ پذیرائی ملی اور2012 میں اسے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کالجز اور لائبریریز کے لیے منظور کیا۔

صحافت کی مختصر تاریخ ،قوانین و ضابطہ اخلاق ان کی دوسری کتاب ہے جو کہ رواں سال شائع ہوئی ہے اور صحافتی حلقوں اسے پسند کیا جارہا ہے۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں