تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

امریکا میں ہزاروں بھوکوں کو کھانا کھلانے والا پاکستانی

پاکستان سے تین ڈالر جیب میں رکھ کر امریکا جانے والے قاضی منان آج ہزاروں بے گھر لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جیسے وہ کسی زمانے میں بھوکے رہے کسی اور کو ایسے بھوکا نہ رہنا پڑے۔

تفصیلات کے مطابق قاضی منان ، واشنگٹن ڈی سی میں قائم سکینہ ہلال گرل نامی ریسٹورینٹ کے مالک ہیں اور ان کی پالیسی ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر پیسوں کے ان کے کاؤنٹر پر آکر کھانے کا مطالبہ کردے تو اسے منع نہیں کیا جاتا۔

قاضی منان سنہ 1996 میں پاکستان سے امریکا آئے تھے ، اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق ایک ایسے پسماندہ گاؤں سے ہے جس میں نہ بجلی تھی اور نہ ہی سیوریج کی سہولیات تھیں۔ ان کا اسکول بھی ایک کھلے احاطے میں قائم روایتی اسکول تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ امریکا آئے تو ان کی جیب میں محض تین امریکی ڈالر تھے ، یہاں آنے کے بعد سب سے پہلی نوکری انہوں نے گیس اسٹیشن پر کری اور اس کے بعد مسلسل آگے بڑھتے گئے۔

سنہ 2013 میں انہوں نے ایک پاکستانی شہری سے یہ ریسٹورینٹ خریدا جس کا نام پہلے ’میور کباب ہاؤس‘ تھا، بعد میں اس کا نام انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر’سکینہ ہلال گرل‘ رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فری کھانا فراہم کرنے کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی کہ ایک مرتبہ ایک بے گھر شخص ان کے کاؤنٹر پر آیا اور کھانے کی قیمت پوچھ کر اس نے کہا کہ ’’میرے پاس صرف تین ڈالرہیں‘۔ منان کے مطابق وہ ایک فیصلے کا لمحہ تھا، انہوں نے اس شخص کو کہا کہ تمہیں پیسے دینے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے یہاں کھانا مفت ہے۔

قاضی منان کا کہنا ہےکہ اس وقت سے انہوں نے پالیسی بنادی کہ جو بھی یہاں آکر کہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں ، اس سے مزید کوئی سوال پوچھے بغیر اسے روایتی گاہکوں کی طرح با عزت طریقے سے کھانا فراہم کیا جائے۔

منان کے مطابق سنہ 2016 میں یہاں سے مفت کھانا کھانے والوں کی تعداد 6 ہزار تھی جو کہ گزشتہ سال بڑھ کر 16 ہزار ہوچکی ہے۔ کبھی کبھی اس سبب انہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اسے خوشدلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مفت کھانا فراہم کرنے کے پیچھے دو اہم وجوہات ہیں، ایک یہ کہ جب وہ امریکا آئے تو کئی بار انہیں ایسے وقتوں سے گزرنا پڑا جب ان کے پاس کھانے کو پیسے نہیں تھے اور وہ بھوکے رہے، سو وہ چاہتے ہیں کہ ایسا وقت کسی اور کو نہ دیکھنا پڑے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک امریکی مسلمان ہیں اور ان کا مذہب انہیں فلاح انسانیت کا درس دیتا ہے دہشت گردی کا نہیں۔

Comments

- Advertisement -