تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان لفظی گولہ باری میں اضافہ

ریاض : واشنگٹن : امریکی صدر جو بائیڈن کے تیل سے متعلق دھمکی آمیز بیان کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان لفظی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔

چند روز قبل امریکا کے صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو خبردار کیا تھا کہ اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے کیے گئے فیصلے سے ریاض کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔

سعودی وزارت خارجہ نے جمعرات کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا، جس میں طلب و رسد کے توازن کو مدنظر رکھا گیا، اس کا مقصد مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو روکنا تھا۔

اس حوالے سے امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اوپیک پلس کے ایک سے زیادہ ممبران تیل کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے سعودی دباؤ سے متفق نہیں ہیں۔

غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جان کربی نے گزشتہ روز سعودی وزارت خارجہ کے اس بیان کی سختی سے تردید کی کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ مکمل طور پر اقتصادی حوالے سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی وزارت خارجہ اس بات سے مکرنے یا انحراف کرنے کی کوشش کرسکتی ہے لیکن حقائق بہت سادہ ہیں، روس یوکرین جنگ کے بعد ماسکو کے خلاف روسی محصولات میں کمی اور پابندیوں کا اثرختم ہو جائے گا۔

امریکہ نے سعودی عرب کو ایک تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوپیک پلس کے پاس اس فیصلے سے پہلے تیل کی پیداوار کو کم کرنے کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں تھی۔

کربی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جمعرات کو جاری کی گئی امریکی تجزیاتی رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی وسط مدتی انتخابات کے بعد اوپیک کے اگلے اجلاس تک کٹوتی کا انتظار کیا جاسکتا تھا۔

انتخابات کے بعد ہونے والا اجلاس اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کانگریس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ پائے گی بھی یا نہیں۔

واضح رہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے عالمی معیشت اور تیل منڈی کی غیر یقینی صورتِ حال کے پیش نظر ماہ نومبر سے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے اوپیک پلس کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے کسی بھی امریکی مخالفت کی سختی سے تردید کی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تعلقات کی تاریخ تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط ہے، تعلقات کی اس گہری اور طویل تاریخ میں تیل کا کردار سب سے اہم ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہونے کی حیثیت سے سعودی عرب کی اہمیت فطری طور پر سب سے زیادہ رہی ہے۔

Comments

- Advertisement -