تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزرا قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

جج ویڈیواسکینڈل کیس کا فیصلہ جاری ، تمام درخواستیں نمٹا دیں

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جج ویڈیواسکینڈل کیس کا فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا گیا معاملہ پہلےہی اسلام آبادہائی کورٹ میں ہےابھی فیصلہ نہیں دےسکتے اور کیس سے متعلق تمام درخواستیں نمٹا دیں ۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے جج ویڈیواسکینڈل کیس کی سماعت کی ، بینچ میں جسٹس عظمت سعیداورجسٹس عمرعطابندیال شامل تھے۔

چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کی جانب سے جج ویڈیواسکینڈل کیس کا فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا ہے ، فیصلےکی کاپی کچھ دیر میں جاری کردی جائے گی، میڈیا اور فریقین فیصلہ ویب سائٹ پر دیکھیں۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ فیصلےمیں ہم نے 5ایشوز کو دیکھا ہے، پہلاایشو متعلقہ فورم اورعدالت سے متعلق تھا، دوسرا ایشو ویڈیو کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے سے متعلق ہے جبکہ تیسرا ایشو ویڈیو مستند ہونے کی صورت میں مجاز فورم کا ہے۔

چیف جسٹس نے بتایا ایشوتھاکہ نوازشریف سےمتعلق ویڈیو ہے کہ نہیں اور ویڈیومستند ہونے کے نواز شریف کیس پر کیا اثرات ہوں گے جبکہ سابق جج ارشد ملک کے کنڈکٹ کو بھی فیصلےمیں بیان کیاگیا، عدالت کے سامنے یہ سارے ایشوز ثابت کرنا ہوتے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ویڈیومستنداورمضمرات سے متعلق ابھی فیصلہ جاری کرنا بہتر نہیں، معاملہ پہلے ہی اسلام آبادہائی کورٹ میں ہے ابھی فیصلہ نہیں دے سکتے، ایف آئی اے کی جانب سے معاملے کی تحقیقات پہلے ہی جاری ہیں۔

معاملہ پہلے ہی اسلام آبادہائی کورٹ میں ہے ابھی فیصلہ نہیں دے سکتے

عدالتی فیصلہ میں کہا گیا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھناہوگا ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ چاہےتوفیصلےکودوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیج سکتی ہے، ٹرائل کورٹ فریقین کوسن کرکیس سے متعلق فیصلہ کرسکتی ہے۔

جج کابیان حلفی اورپریس ریلیزایک تلخ حقیقت ہے

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ویڈیوسےمتعلق جج ارشدملک کےبیانات ان کیخلاف کارروائی کیلئے کافی ہیں، جج کابیان حلفی اورپریس ریلیزایک تلخ حقیقت ہے، جج کاطرزعمل پورےادارےکےلیےبدنماداغ کی طرح ہے، جج کابیان شرمناک طور پر ظاہر کررہا ہے، ان کاماضی مشکوک رہاہے۔

اعلیٰ عدالت نے جج ویڈیواسکینڈل سے متعلق تمام درخواستیں نمٹادی گئیں ، فیصلہ میں مزید کہا گیا جج ایسےلوگوں سےذاتی ملاقاتیں کرتارہا، جوملزمان کےساتھی تھے، جج کودھمکیاں اوررشوت کی آفرہوئی لیکن اعلیٰ حکام کوآگاہ نہیں کیاگیا، دھمکیوں،رشوت کی آفرکےباوجودجج کیس سےالگ نہیں ہوا اور ملزم کو سزا دینے کے بعد بھی جج دوسرے شہر جاکر ملزم سے ملا۔

جج کی مکروہ حرکتوں سے بہت سے ایماندار ججز کے سرشرم سےجھک گئے، فیصلہ

عدالتی فیصلے میں کہا گیا جج اپنےہی فیصلےمیں مجرم ثابت کرنےوالےشخص کی اپیل میں مددگاربنا، جج نےملزم کےبیٹےسےملاقات میں اپنےہی فیصلےکی کمزوریاں بتائیں، جج کی مکروہ حرکتوں سےبہت سےایماندارججزکےسرشرم سےجھک گئے۔

فیصلے کے مطابق ایف آئی اےتحقیقات کررہی ہے،کمیشن بھی قائم کیاجاسکتاہے، معاملےکی تحقیقات یاکسی کمیشن کااثرہائی کورٹ میں دائر اپیلوں پرنہیں پڑےگا اور اسلام آباد ہائی کورٹ ہی نوازشریف کی اپیلوں پرفیصلہ کرےگا۔

ایف آئی اےتحقیقات کررہی ہے،کمیشن بھی قائم کیاجاسکتاہے

عدالت نے فیصلے میں کہا مستند ویڈیوکی تحقیقات ہونےتک نوازشریف کیس میں فائدہ نہیں ہوگا، آصف زرداری کیس میں بھی آڈیوپیش ہوئی،ریکارڈکاحصہ نہیں بنایاگیا، آصف زرداری کیس میں تصدیق شدہ آڈیوپیش نہ کرنے پر مستردکی گئی تھی۔

مستند ویڈیوکی تحقیقات ہونےتک نوازشریف کیس میں فائدہ نہیں ہوگا

فیصلہ میں کہا گیا جدیدٹیکنالوجی سےکسی بھی آڈیویاویڈیوکافرانزک ٹیسٹ کرایاجاسکتاہے، فرانزک ٹیسٹ سےثابت کیا جاسکتاہے آڈیو و یڈیو اصلی ہے یا نقلی، متنازع ویڈیو پر جج ارشدملک کہتے ہیں توڑموڑ کر پیش کی گئی، کرمنل کیس میں متنازع شواہدساکھ گنوا دیتے ہیں اورپیش نہیں کیےجاسکتے، کرمنل کیس میں آڈیو ویڈیو پیش کرنے کیلئے ان کی تصدیق لازمی ہے۔

عدالت کی صوابدید ہےجو آڈیو ویڈیو شواہد کو کیس کاحصہ بنائے یا نہیں

عدالتی فیصلے کے مطابق عدالت کی صوابدید ہےجو آڈیو ویڈیو شواہد کو کیس کاحصہ بنائے یا نہیں اگر عدالت آڈیوویڈیو کو کیس کا حصہ بنابھی لے تو قانونی طور پر تصدیق لازمی ہے، آڈیو اور ویڈیو بنانے والے شخص کو عدالت میں پیش ہونالازمی ہے اور شخص کو بذات خودعدالت میں شواہدجمع کراناہوں گے۔

پیش کی جانےوالی آڈیوسننےکےقابل اورویڈیودیکھنےکےقابل ہونی چاہیے

فیصلہ میں مزید کہا گیا پیش کی جانےوالی آڈیوسننےکےقابل اورویڈیودیکھنےکےقابل ہونی چاہیے، آڈیویاویڈیومیں کون بات یاکون نظرآرہااس کی تصدیق بنانے  والا کرے گا اور آڈیو یا ویڈیو بنائے جانے سے لے کر پیش کرنے تک سیف کسٹڈی لازمی ہے، ثابت کرناہوگاکہ ویڈیو بنائے جانے اور پیش ہونے تک محفوظ  رہی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ٹریپ کرنےکی نیت سے آڈیوویڈیو بنانے کو بطور شواہدقبول نہیں کیاجاسکتا، آڈیو ویڈیو بنانے والے شخص کا اس پیشےسےمنسلک ہونا لازمی ہے، آڈیو ویڈیوکب ریکارڈ کی گئیں عدالت میں تاریخ بتانا ہوگی اور اسلام آبادہائی کورٹ فیصلہ کرےگاآڈیوویڈیوکوکیس کاحصہ بنانا ہے یا نہیں۔

قانون کےمطابق آڈیوویڈیوشواہدکونوازشریف کیس کاحصہ بنایاجاسکتاہ

عدالتی فیصلے میں کہا گیا قانون کےمطابق آڈیوویڈیوشواہدکونوازشریف کیس کاحصہ بنایاجاسکتاہے، کیس کاحصہ بنانے کے لئے آڈیو اور ویڈیو شواہد کے لئے قانونی نکات ضروری ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ واپس بھیجنے کا حکم


گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ واپس بھیجنے کا حکم جاری کر دیا، نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی لاہور ہائی کورٹ کرے گی۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی ہدایت پر قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی اورپریس ریلیزمیں اعتراف جرم کرلیا، ارشد ملک بادی النظر میں مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

یاد رہے سپریم کورٹ نےدلائل مکمل ہونےپر20 اگست کوفیصلہ محفوظ کیاتھا، مبینہ ویڈیوکی تحقیقات سےمتعلق ایف آئی اےبھی رپورٹ دےچکی ہے  اور  مبینہ ویڈیوکی انکوائری کیلئے3مختلف درخوستیں دائرکی گئی تھیں۔

ویڈیو اسکینڈل سےمتعلق دائرمتفرق درخواستوں پر تین بار سماعت ہوئی، بیس اگست کی سماعت میں چیف جسٹس کے حکم پر ایف آئی اے رپورٹ پیش کی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جج کےاس کردارسےہمارےسر شرم سے جھک گئے، کتنے شرم کی بات ہے جج ارشد ملک خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان سے رہا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کے کردار کے حوالے سے بہت سی باتیں دیکھنے والی ہیں، عدلیہ کی حد تک معاملہ ہم خود دیکھیں گےجس کو ویڈیو کا فائدہ ہو رہا ہے اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔

Comments

- Advertisement -