تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے علم میں لائے بغیر کمیشن بنایا گیا، چیف جسٹس کا چارج کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیولیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں۔

درخواست گزار ریاض حنیف راہی روسٹرم پر آئے اور کہا آڈیو لیکس کمیشن میں توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، یہ درخواست بھی اس کیس میں مددگار ثابت ہو گی۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین کامعاملہ عدالت اورتوہین کرنے والے کے درمیان ہوتاہے، توہین عدالت کی درخواست سے متعلق بھی چیک کرالیتے ہیں۔

درخواست گزار حنیف راہی نے کہا کہ میں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی، میری تو ہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا تو چیف جسٹس پاکستان عطاعمر بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تودور کریں، آپ یہ بھی سمجھیں کس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتےہیں، جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا۔

عدالت نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور آڈیو لیک کمیشن ارکان کیخلاف توہین عدالت درخواست پر فوری سماعت کی استدعا مسترد کردی۔

چیف جسٹس بندیال نے توہین عدالت کی درخواست کے درخواست گزار کی سرزنش کرتے ہوئے کہا معلوم ہے آپ نے توہین عدالت کی درخواست کس کیخلاف دائر کی ہے، آپ نے ججز پر توہین عدالت کا الزام لگایا ہے، عمومی طور پر ججز کو توہین عدالت درخواستوں میں فریق نہیں بنایا جاتا۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق آج ججز کیخلاف اعتراضات پر دلائل ہونے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اعتراضات پر دلائل شروع کریں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئےاعتراضات پڑھ کر سنائے، اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ بھی پڑھ کر سنا دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کرسکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا، ان نکات پر آپ نے دلائل دینے ہیں، آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنےسےپہلےقانون کوسمجھیں۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے 3ججز متنازع ہیں؟ اگر اس پرجاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ 3متنازع ہیں، میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت نے حکم نامہ میں جن فیصلوں پر انحصار کیا وہ ججز کی جانبداری سے متعلق ہیں، جس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ریفرنسز ان فیصلوں کے دیے گئے ہیں جہاں متبادل نہ ہو تو فیصلہ مجاز فورم ہی کرتا ہے، ایسی صورتحال میں جانبداری کا الزام واحد دستیاب فورم پر نہیں لگ سکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے چیف جسٹس کا عہدہ آئینی ہے جس کے انتظامی اختیارات بھی ہوتے ہیں، چیف جسٹس دستیاب نہ ہوں تو آئین کے تحت قائمقام کا تقرر ہوتا ہے، چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں کیے جا سکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس میں کیا الزامات ہیں معلوم نہیں، چیف جسٹس چیف جسٹس نےہی فیصلہ کرناہے کہ کمیشن  کیلئے ججز دستیاب ہیں یا نہیں، مفادات کا ٹکراؤ ہو بھی تو چیف جسٹس آفس ہی فیصلہ کرے گا کیونکہ یہ آئینی عہدہ ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ایک اعتراض بینچ کی تشکیل دوسرا کمیشن کے ٹی او آرز کی بنیاد پر ہے، چیف جسٹس کی جانب سے کمیشن کیلئے نامزدگی دوسرا اعتراض ہے، ججز ضابطہ اخلاق کے تحت موجودہ بینچ کے کچھ ممبران کیس نہیں سن سکتے ، مفادات کا ٹکراؤ ہو تو ججز کو بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ پہلے آپ اختیارات کی آئینی تقسیم اور قانونی نکات پر بات کریں، عدلیہ کی آزادی کے نکتے اور ماضی کے عدالتی فیصلوں سے متفق ہیں یا نہیں پہلے یہ بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے اور کہا لیک آڈیوزمیں ایک چیف جسٹس کی ساس سےمتعلق ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا آپ کا اسوقت کیس یہ ہےکہ آڈیوز بادی النظرمیں درست ہیں؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملےپرابھی صرف کمیشن بنایاہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یانہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نےتو اس پر پریس کانفرنس بھی کردی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پرپریس کانفرنس کرچکے، پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلابھی دی گئیں، کیاقانونی طور پر درست ہےجسےآڈیوزکی حقیقت کانہیں پتہ وہ بینچ پراعتراض اٹھائے۔

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کاپوچھ رہا ہوں، وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیاجا سکتا؟ ایسے بیان کے بعد تواس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس  کسی نےکی ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے اتنے اہم ایشو پرکابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیےتھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پردیاگیا۔

سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیولیکس کیس میں اٹارنی جنرل کے بعد وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 16فروری کو پنجاب اور کےپی انتخابات کے ازخود نوٹس کیلئےلکھا گیا،تین آڈیوز اسی دن آگئیں ، پھر 17 فروری کوآڈیوز آئیں اور آج تک سلسلہ جاری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹویٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک سےیابیرون ملک سےآپریٹ ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کے سامنے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٓکیا حکومت نے وسائل سے معلوم کیا آڈیوز لیکس کہاں ، کیسے ہو رہی ہیں ، کون یہ سب کر رہا ہے؟ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیاہے، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کرالیتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے یہ تو بڑا آسان ہوجائےگا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو نام لیکر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں، یہ آپشن اس لئے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں،کیا حکومت نے یہ معلوم کرنےکی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعےعوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں،وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کانہ سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کوئی معاملہ سپریم کورٹ ججز سے متعلق نکل آئے پھرنظریہ ضرورت پرعمل ہوسکتاہے،اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں مزید کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے کازکا خودجج نہیں ہوسکتا، ہماری اس سارےمعاملےپرکوئی بدنیتی نہیں ، بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کیخلاف عدالت آئے،درخواست گزاروں کاحق متاثرنہیں ہوگا، استدعا ہے بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کا اعتراض دواورججزپربھی ہے،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہماری درخواست کامتن آپ کے سامنے ہےاس کا جائزہ لے لیں۔

درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیاکہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی اوآرز میں آڈیوٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں، ساری آڈیوزپنجاب الیکشن سےمتعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں۔

وکیل شعیب شاہین نے سوال اٹھایا کہ یہ آڈیوزریکارڈنگ کس نے کی؟ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعےمنظر عام پر لائی گئیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیاحکومت نےمعلوم کرنےکی کوشش کی یہ آڈیوز کون لیک کررہاہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہےآڈیوز کے حوالے سے ساری تحقیقات کمیشن کرے، جووزرااپنےطورپربیان دیتےہیں انہیں حکومت کابیان نہ سمجھا جائے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کسی بھی ملک میں جب وزرابیان دیتے ہیں توانہیں حکومتی بیان ہی سمجھاجاتاہے، بے نظیر بھٹو کیس میں چارججزکی اپنی آڈیوزتھیں، کیا ان ججز نے کیس سن کر غلط کیا؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کیس میں کسی نےبینچ پراعتراض نہیں اٹھایاتھا۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ وفاقی حکومت الیکشن کیس میں ایک فریق ہے وہی کمیشن بنارہی ہے، ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی، یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت کاہے، بینچ نے کسی کےحق میں یاخلاف فیصلہ نہیں دیناتشریح کرنی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر بینچ تبدیلی کی درخواست ہے وہ دیکھی، کیا ہم آڈیوز کو پہلے ہی تسلیم کر لیں؟ یہ تو بلیک میلنگ کا بہت آسان طریقہ ہوجائے گا، کسی بھی فیک آدمی کے زریعےجعلی آڈیوز بنوا دی جایا کریں گی، اس عدالت نے صرف الیکشن کرانے کا کہا تھا، اس پر آڈیوز آنے لگی اور ٹاک شوز میں کیا نہیں کہا گیا۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ پیمرا اس دوران کہاں دیکھ لیں پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں، عدلیہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ، عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے، لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں،لوگوں کے سیاسی نظریات پر ان کے 82 سال کے والد کو اٹھا لیا جاتا ہے، کیا عدلیہ میں ایگزیکٹو ایسے مداخلت کرے گی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت مکمل کرلی۔

عدالت نے بینچ پر اعتراض سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے آڈیولیکس کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

خیال رہے وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سمیت 3 ججز پر اعتراض کرتے ہوئے بینچ سے الگ ہونے کی استدعا کر رکھی ہے۔

Comments

- Advertisement -