پیر, فروری 17, 2025
اشتہار

سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل علی ظفر سے سوال

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتخابی نشان کیس کی سماعت وکیل علی ظفر سے سوال کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا میڈیا پر اعلان کیا تھا، کوئی خط نہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے،عمران خان سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے سابق سربراہ نے نہیں.

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت پارٹی چیئرمین کون تھا؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کوانٹراپارٹی الیکشن پراعتراض ہےتووہ سول کورٹ جاسکتاہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا، ہم پوری جمہوریت پر چلیں گے بہت ہو گیالولی لنگڑی والا کام۔

وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ اکبر ایس بابرپارٹی ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، وکیل نے کہا میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں، میرا بیان یہ ہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں،مجھے ہدایات یہی ملی ہیں کہ اکبرایس بابر ممبر نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایات دے رہے ہیں؟

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ آپ کامطلب ہےالیکشن کمیشن کو حق نہیں کہ دیکھےالیکشن مروجہ طریقہ کارسےہوئے یا نہیں؟ تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ تشریح نہیں نکلتی کہ 2لاکھ دیکرکبھی انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانے ہیں؟

دوران سماعت چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کاغذات نامزدگی چیک کرنے کا کہہ دیا اور کہا جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں، علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہے تو چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دئیے گئے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہو گا۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس یا کاغذات نامزدگی کا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا فیس کیش میں وصول کی گئی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟

جسٹس مسرت ہلال نے ریمارکس دیئے 50ہزار کی رسید دیں،آپ دوسروں سے بھی رسیدیں مانگنے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے بڑےعہدوں پرسب پارٹی سربراہ ہوتےہیں،ان کےخلاف الیکشن کی کوئی ہمت نہیں کرتا، پارٹی کے چھوٹے عہدوں پرتوکم سےکم جنگ ہوتی ہے، صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوجاتی، آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے، انگلینڈ میں اگر انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر وزیراعظم تبدیل ہوتا تو کوئی نہ مانتا۔

چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے کاغذات نامزدگی دکھا دیں، سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یا نہیں،پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کوئی کاغذات نامزدگی نہیں ہے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات کے بعد ویب سائٹ سے کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے، کاغذات نامزدگی چاروں صوبائی دفاتر میں دستیاب تھے۔

وکیل پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ تمام پارٹی ارکان کو معلوم تھا کہ فارم کہاں سے ملے گا اور جمع کہاں ہوگا،کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے 3 دن کا وقت دیا گیا تھا، کاغذات نامزدگی کیساتھ 50 ہزار روپے فیس بھی تھی،جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا 50ہزار کس بینک میں گئے وہ دکھا دیں، علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی فیس کیش کی صورت میں لی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا سیاسی جماعت کیش کیسے لے سکتی ہے؟ پیسے کہاں گئے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگرکسی عام انتخابات میں 326ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوجائیں تومیں تونہیں مانوں گا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن میں چھوٹی سی چھوٹی نشست پربھی بلامقابلہ انتخاب ہوا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن قابل اعتبارنظرنہیں آرہے ، آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن نظر نہیں آ رہا،جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کیا آپ نے اپنے لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی، بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کیلئے 20 دن کا وقت دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل پی ٹی آئی سے کہنا تھا کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کرائیں ، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دیکھائی کہ حکومت میں ہی نوٹس دیا،تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو شیڈول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا،اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے،الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ پارٹی الیکشن شیڈول پر اعتراض کا جواب دوں گا، چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے تو علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی پارٹی کا نعرہ ہی لوگوں کو جرأت اور اختیار دینا ہے، پی ٹی آئی کے اپنے انتخابات میں ہی اتنی بے ضابطگی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کب پارٹی میں آئے، علی ظفر نے بتایا کہ میں نےتقریباً2سال قبل ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی ہے، چیف جسٹس نے مزید پوچھا مسٹرگوہرنےکب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی،پہلےکس جماعت میں تھے؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہبیرسٹرگوہرایک زمانےمیں پیپلزپارٹی میں تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید پوچھا تواکبرایس بابرنےکوئی اورجماعت میں شمولیت اختیارکی توبتادیں؟ تو وکیل نے بتایا کہ 2018 میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اکبرایس بابرکونکال دیاگیاتھا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکبرایس بابرکوپارٹی سےنکالاہےتووہ ٹرمینیشن لیٹر دکھا دیں،آپ کاکیس مضبوط ہوجائےگا،اگرواضح جواب نہیں دیں گےتومیں سمجھوں گااکبرایس بابراوردیگر13افرادپارٹی ممبران ہیں، ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ مطلوبہ دستاویز نہ دے سکوں توآپ فرض کرلیں کہ وہ افراد ممبران ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قرارنہیں دے سکتا، علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں ٹریبونل کا کردار ادا نہیں کر سکتا،پارلیمان نے انٹراپارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتی، قانون کے مطابق انٹرپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے،پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے، 50ہزار کے حساب سے فیس کہاں جمع ہوئی یہ بھی دکھا دیں، اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا،عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں،پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اکبرایس بابر کہتے ہیں وہ فارم اور معلومات لینے گئے، علی ظفر نے بتایا کہ اکبرایس بابر اگر فارم لینا چاہتے تو ضرور لیکر جاتے، کبرایس بابر نہ انتخابات کیلئے اہل ہیں نہ ہی انہوں نے فیس ادا کی، کبر بابر اگر ممبر ہیں تو رکنیت کارڈ دکھا دیں، 20نومبر کو انٹراپارٹی انتخابات کا اعلان ہوا جو میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا، سابق چیئرمین نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ تو وکیل نے بتایا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے میڈیا پر اعلان کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے مکالمے میں مزید کہا کہ وہ خط دکھائیں جس کے تحت سابق چیئرمین نے گوہر علی خان کو چیئرمین نامزد کیا، تو بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ وہ خط میڈیا میں آیا تھا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا اس طرح تو ہم نہیں مان سکتے،کاغذ پر تو کچھ تو دکھا دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا نیاز اللہ نیازی کب پی ٹی آئی کا حصہ بنے؟ علی ظفر نے بتایا کہ نیاز اللہ نیازی 2009 سے پی ٹی آئی کے رکن ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچر کا تاثر مل رہا ہے تو وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلا شخص الیکشن نہیں لڑسکتا پینل بنانا ضروری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی تو کاغذ دکھا دیں، جسٹس مسرت ہلالی نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا لگتاہےآپ کی پارٹی دستاویزات کےمعاملےمیں تھوڑی کمزورہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں