تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے جبکہ سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کرنے کی ہدایت کی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دہلی کالونی اورپنجاب کالونی میں تجاوزات سےمتعلق سماعت کی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان علاقوں میں تعمیرات کیسےہو رہی ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ حکام نے بتایا ہم نےایکشن لیا ہے،کارروائی کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں،یہ تعمیرات ہوئیں کیسے، اجازت کس نےدی، اٹارنی جنرل صاحب،کنٹونمنٹ بورڈمیں ایسی تعمیرات کی اجازت کون دےرہاہے، 9، 9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کوگرائیں، ان علاقوں میں بھی عمارتوں کوگراناپڑےگا۔

پنجاب کالونی،دہلی کالونی،پی این ٹی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے اور گزری روڑپربھی غیرقانونی عمارتیں گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا پی این ٹی کالونی میں بلندعمارتیں غیرقانونی بن رہی ہیں، وفاقی ملازمین کےکوارٹرزکی جگہ عمارتوں کی اجازت کون دےرہاہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا بہت سےمقدمات زیرسماعت ہیں حکم امتناع تک کیسےگراسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ توایسےہی چلتارہےگاآپ کوسخت ایکشن لیناہوگا، اےجی صاحب پوری کالونی ہی میں غیرقانونی تعمیرات ہورہی ہیں۔

چیف جسٹس نے حکم دیا آپ بلندوبالاعمارتیں گرائیں اورپارک بنادیں، پولیس والوں کی گاڑی کھڑی کرکےسب بن جان جاتاہے، چلیں، آپ صرف سرکاری کوارٹرز رہنے دیں، باقی سب گرائیں۔

،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان بلندوبالاعمارتوں کوحکومت استعمال کرسکتی ہےتو چیف جسٹس نے کہا نہیں اٹارنی جنرل صاحب،یہ سب غیرقانونی ہے،سب گرائیں۔

عدالت نےدہلی،پنجاب کالونی پرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈسےجواب طلب کر لیا، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈحکام نے بتایا دہلی اورپنجاب کالونی وفاقی حکومت کی زمین ہے، جس پرجسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈہرقسم کی عمارتوں کی اجازت دےرہاہے، 60 گز کے اوپر9، 10منزلہ عمارت بنانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ایسا نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈجس طرح چاہےعمارتوں کی اجازت دے ، کیا آپ کی حکومت چل رہی ہےجواپنی مرضی سےکام کریں، جس ہر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا کہنا تھا کہہم نے بہت سی عمارتیں گرائی ہیں، رہائشی پلاٹ پرگراؤنڈپلس ٹوکی اجازت ہے، کمرشل پلاٹس پر5منزلہ عمارت کی اجازت دےرہےہیں۔

چیف جسٹس نے کونسل کنٹونمنٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں، آپ انگریزی بول کر ہمارا کچھ نہیں کرسکتے، کیا ہمیں معلوم نہیں کیا حقیقت ہے، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کیا اپنی پوزیشن واضح کر سکتاہے، 5 ،5 کروڑ کے فلیٹ بک رہے ہیں، آپ لوگوں نے خزانے بھرلئے۔

جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ لوگوں سے پیسے لے لے کر اپنے خزانے بھررہے ہیں، آپ کےدفترکی ناک کےنیچےیہ سب ہورہاہے، عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے کہا یہ کوثرمیڈیکل اور اس کےبرابرمیں کیسےبڑی عمارتیں بن گئیں، آخرکنٹونمنٹ بورڈمیں کس کی اجازت سےسب ہورہا ہے، ڈائریکٹرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز نے تسلیم کیا کہ بہت سی عمارتیں غیر قانونی ہیں۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین آپ پربھروسہ کرکےدی گئیں،کرکیارہےہیں، وہاں کنٹونمنٹ تونہیں رہااب وہاں تواورہی کچھ بن گیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب آپ کی سٹرکیں ختم ہورہی ہیں، گلیوں میں آدمی نہیں گزرسکتا، کررہے ہیں، طارق روڑ دیکھا ہے ،اب کیا حال ہوچکا، عمارتیں ضرور بنائیں مگرکوئی پلاننگ توکریں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا یہ اب آپ لوگوں کےبس کی بات نہیں، اس کے لیے دنیا سے ماہرین منگوانا پڑیں گے، لائنز ایریا دیکھا ہے، مزار قائد کے اطراف کیا ہو رہا ہے، خدادادکالونی دیکھ لیں،مزارقائدکےماتھےکاجھومربناکررکھاہواہے، مزار قائد کے سامنے فلائی اوور کیسے بنادیا، مزار قائد چھپ کر رہ گیا، عمارتیں بنا ڈالیں، شاہراہ قائدین کانام کچھ اور ہی رکھ دیں وہ قائدین کی نہیں ہو سکتی۔

جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ملائشیا فارمولہ سنا ہے آپ نے، کوالالمپور کو کیسے صاف کیا،ذرا اس پرریسرچ کریں، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا ہم ملائشیا فارمولے پر ہی کام کر رہےہیں، مجھے تھوڑاسا وقت دیں، وفاق،سندھ حکومت آپس میں بات کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا شہری حکومت کام کر رہی ہے نہ صوبائی نہ وفاقی، کراچی کیلئےپھرکس کوبلائیں جب کوئی حکومت کام ہی نہیں کررہی، کراچی ایک میگا پرابلم سٹی بن چکا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ پلان کرنےکی ضرورت ہے، تھوڑا ساوقت دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا متاثرین کو جس طرح پیسےدیئےجاتےہیں وہ بھی ہمیں پتہ ہے، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا، حل ضرور نکال لیں گے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا کوئی وژن نہیں، کیا کرنا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو شہر کا جامع پلان بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کیسے کچی آبادیوں کو جدید طرز پر بنایا جا سکتا ہے، وفاق اور صوبائی حکومت ماہرین سےمشاورت کرکے پلان ترتیب دے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا اجازت دیں تو ایک پلان دینا چاہتا ہوں، جتنے ادارے ہیں انہوں نے شہر کو جنگل بنا دیا، سرکاری افسران سے صحیح بات عدالت نےکبھی نہیں آئےگی، اس لیےایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دےدی جائے۔

اےجی سندھ کہا عدالت ماہرین پرمشتمل اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنادی جائے، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا یہ بتائیں، کمیٹی کرے گی ، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو صحیح۔

جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اےمیں خالی گھر کے باہر اینٹ رکھ دیں تودیکھیں کیسےپہنچتےہیں، ڈی ایچ اے ،کنٹونمنٹ  بورڈز نے اختیارات اپنے پاس رکھے ،یہ جسےچاہتے ہیں زمین دیتے اور جسےنہ چاہیں نہیں دیتے، کنٹونمنٹ بورڈز ،ڈی ایچ  اے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے ہی صوبائی اداروں پرعدم اعتماد کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت پر بھروسہ کیا تو کچھ نہیں ہوپائےگا، متعلقہ ادارے سب اچھا ہی کی رپورٹس دیتے رہیں گے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ اگلا ڈی جی ایس بی سی اے لگائیں گےوہ اور 2 ہاتھ آگے ہوگا، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، دیکھ لیں یہ سب کوئی باہرسےنہیں کر رہا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کمیٹی بنانا ہمارا کام نہیں، حکومت چاہے تو خود کمیٹی بنادے، یہ سارے کام تو خود حکومت کے ہیں، اے جی سندھ کا کہنا تھا احساس دلانا پڑےگا،کوئی نہیں کررہا ، محسوس کرےتوعدالت یہ کام کرے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کنٹونمنٹ بورڈمیں گزری کاحال دیکھاہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ یہی حالات رہے تو پھر  ادارے سمندر سے آگے بھی تعمیرات کرڈالیں گے، عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی کوئی کام نہیں کررہا، اچھے لوگ بھی ضرور ہیں،  اس لیے آپ کوئی بڑاحکم دیں، ایک شخص پیسےجمع کرکےفلیٹ خریدے توکیسےتوڑ دیں، فلیٹ میں رہنے والا کہاں جائے گا یہ انسانی معاملہ ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ نہیں چاہتے ہمارےمنہ سے ایسے الفاظ نکلیں توکسی کیلئےنقصان دہ ہو، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ادارہ  ٹھیک نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا جی آپ درست کہہ رہے ہیں، ادارہ کوئی ٹھیک نہیں تو چیف جسٹس نے کہا آپ ووٹ لینےکی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

سلمان طالب الدین نے بتایا ریلوے نے غریب 6ہزارلوگوں کوبےگھر دیا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا سلمان صاحب ، انہیں  بیٹھایاکس نے تھا ، آپ کے پاس وسائل ہیں، سب کر سکتے ہیں مگر کریں گے نہیں تو سلمان طالب الدین کا کہنا تھا وفاق نے 100 ارب دینے ہیں، وسائل نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگےگی ، 105 ارب روپے پہلےبھی ملےمگر ایک پائی نہیں لگی، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا میں اس شہر میں پیدا ہوا،بتائیں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے، پولیس اسٹیشن تک کرائے پر لے رکھےہیں، سب بیچ ڈالا، ہمیں تکلیف اس لیے ہے آپ نے کچھ نہیں چھوڑا۔

اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ مجھے اور انور منصور کو بھی یہی تکلیف ہے، آخراس شہر کاکیاہوگا، افسران کوکہانیاں سناکر چلے جاتے ہیں،  سارے معاملے کو روکنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کوئی گراؤنڈ چھوڑا نہ ہی کوئی اسپتال کی جگہ۔

سپریم کورٹ نے شہرقائدکا ازسرنو جائزہ لینے کے معاملے پر کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے اور سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کریں۔

سپریم کورٹ نے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا کہ اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن میں سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

اےجی سندھ سلمان طالب الدین کا کہناتھا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہےمیں خود اس پربریف کردوں گا، خود بتاؤں گا کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پتہ نہیں چل رہا کہ کس پربھروسہ کریں۔

Comments

- Advertisement -