تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس دینے کی حکومتی استدعا مسترد

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کردی اور چیئرمین پی ٹی آئی سے جواب طلب کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں وزارت داخلہ کی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس کی سر براہی میں 5رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ پولیس اور حساس اداوں کی رپورٹس کا جائزہ لیا ہے ، عدالت کا پہلا سوال تھا عمران خان نے ڈی چوک کی کال کب دی تھی۔

عامر رحمان کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا ،عمران خان نے 6:50پرڈی چوک کا اعلان کیا ، عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے، 26مئی کو صبح جناح ایونیو پر چھ بجے ریلی ختم کی گئی، عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی، مختص مقام ایچ نائن سے چار کلومیٹر آگے آکر عمران خان نےریلی ختم کی۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلانے دی تھیں ، عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا، عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے، عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بابر اعوان فیصل چوہدری نے عمران خان کی طرف سےیقین دہانی کرائی تھی، یقین دہانی تھی سڑکیں بلاک ہونگی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گے۔

جس پر جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ فیصل چوہدری،بابر اعوان ،عمران خان سے جواب طلب کر لیتے ہیں ، یقین دہانی کرانے والوں سے پوچھ لیتے ہیں ایسا کیوں کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سول کنٹمٹ میں متعلقہ شخص کو شایدعدالت بلانالازمی نہیں ہوتا، جب جوابات آجائیں گےتب تحریری طور پر عدالت کے پاس ریکارڈ ہوگا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت قانون میں کیاایسی شق ہے کہ پہلے جواب مانگیں پھرنوٹس ہو، توہین عدالت کےقانون میں یانوٹس ہوتاہےیاپھرکیس خارج ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تینوں اداروں کی رپورٹس اور آپکے الزامات کاتحریری جواب آجائے، جواب کی روشنی میں دیکھیں گے توہین عدالت نوٹس کا معقول جواز ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نےتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرنےکی حکومت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کی درخواست پر عمران خان سے جواب طلب کر لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا کہ احتجاج کرنا سیاسی جماعت کا حق ہے،اسے قانون کے دائرے میں رکھنا انتظامیہ کا کام ہے، نہ ہم انتظامیہ کے اختیارات استعمال کریں گے، نہ آپ ہمارے قلم کو بطور چھڑی استعمال کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کو اپنا احتجاج پر امن رکھنا چاہیے،ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا نہ کریں ، بعد ازاں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے 31اکتوبر تک جواب طلب کرلیا۔

Comments

- Advertisement -