اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نےپاناماکیس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت شروع کی۔
پاناماکیس کی سماعت پروزیراعظم اوران کے بچوں نےسپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائرکردی،جس میں عمران خان کی اضافی دستاویزات کوریکارڈکاحصہ نہ بنانےکی استدعا کی گئی ہے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہےکہ اضافی دستاویزات کوریکارڈکاحصہ بناناہےتو8 ہفتوں کاوقت دیاجائے۔اضافی دستاویزات ہمارےوکلا کےدلائل مکمل ہونے کےبعدجمع کرائےگئی۔
درخواست گزار نے استدعا کی ہےکہ دلائل ختم ہونےسےدستاویزات پرجواب جمع کرانےکاموقع نہیں ملےگا،اضافی دستاویزات منظورکرنےکی صورت میں سماعت 8ہفتوں بعدمقررکی جائے۔
درخواست میں کہاگیاہےکہ عمران خان،جہانگیرترین کےخلاف درخواستوں کوسماعت کےلیےمقررکیاجائے۔درخواست میں موقف اختیار کیاگیاہےکہ عمران خان،جہانگیر ترین نےبھی آف شورکمپنیزکےالزامات کومستردنہیں کیا۔
وزیراعظم اوران کے بچوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائرکی جانے والی درخواست میں موقف اپنایاگیاہےکہ تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان نے لندن فلیٹس کی بے نامی منی ٹریل پیش نہیں کی۔
چیئرمین ایف بی آر نےعدالت عظمیٰ میں کہاکہ 2ستمبر 2016 کو ایف بی آر نے پاناما لیکس پر343افراد نوٹس جاری کیے۔انہوں نےکہاکہ آف شورز کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹرز کا نام ہونا کافی نہیں۔
انہوں نےکہاکہ 39کمپنیوں کے مالکان پاکستان کے رہائشی نہیں جبکہ 52افراد نے آف شور کمپنیوں سے ہی انکار کیا،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کن کا جواب آیا۔
چیئرمین نیب نے کہاکہ حسن،حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جواب دیا۔مریم نواز نے کہا ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک نہیں ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیاکہ کیامریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا؟جس پر چیئرمین ایف بی آر نےکہاکہ مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نےسوال کیاکہ ایف بی آر کا پاناما کے معاملے پر وزارت خارجہ سے رابطہ کب ہوا؟انہوں نےکہاکہ ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے210 گزکے فاصلے پر ہےلیکن اسے وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے میں 6ماہ لگ گئے۔
جسٹس عظمت نےکہاکہ دو سو گز کا فاصلہ چھ ماہ میں طے کرنا آپ کو مبارک ہو،انہوں نےکہاکہ ایف بی آر نے پاناما لیکس پر آف شور کمپنی مالکان کو نوٹسز کب جاری کیے؟۔
پاناماکیس میں چیئرمین ایف بی آر نےعدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہاکہ مجھےاپنے اختیارکاپتہ چل گیا،اب ایکشن لوں گا۔جسٹس عظمت نے کہاکہ آپ کیا ایکشن لیں گے؟اب تک آپ نے پاناما کے معاملے پرایکشن کیوں نہیں لیا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نےچیئرمین ایف بی آر سےکہاکہ آپ ایکشن لیتے پھر جوجواب آتا ہم دیکھ لیتے۔
چیئرمین نیب کا کہناہےکہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے،جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ نیب کا موقف ہے پاناما معاملہ انکے دائرے میں نہیں آتا۔
چیئرمین نیب نےکہاکہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کاروائی کرتے ہیں،جسٹس عظمت نےکہاکہ کیا نیب کا موقف ہےکہ ریگولیٹر نہیں آیا۔انہوں نےکہاکہ اسی لیے آف شور کمپنیوں کےخلاف کارروائی کا اختیار نہیں۔
جسٹس گلزار احمد نےکہاکہ نیب قانون میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے؟جس پر چیئرمین نیب نےکہاکہ نیب کا قانون ہمیں ریگولیٹ کرتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ نیب قانون چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے۔
انہوں نےکہاکہ چیئرمین نیب ریگولیٹر کی بات کرتے ہیں، نیب کا ریگولیٹر کون ہے نہیں جانتے،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ جو بات چیئرمین نیب کر رہے ہیں ایسی باتیں قطری خط میں تھیں۔انہوں نےکہاکہ قطری خط میں بھی ریگولیٹر کی بات تھی۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نےکہاکہ مشکوک ٹرانزیکشن پر بینک کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے، جسٹس عظمت نےکہاکہ بجلی اور گیس کے ریگولیٹر موجود ہیں آج نیب کے ریگولیٹر کا بھی پتا چل گیا۔
جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہاکہ کیاریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین نیب کو تعینات کرے،جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ نیب کا موقف سن کر افسوس ہوا۔انہوں نےکہاکہ پراسیکیوٹر صاحب اب بس کر دیں، عدالت کو گمراہ نہ کریں۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نےکہاکہ اپنی زندگی میں کبھی عدالت کو گمراہ نہیں کیا،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے۔انہوں نےکہاکہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی کا دائرہ اختیار نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ سوال یہ ہے آخر تحقیقات کرے گا کون؟۔انہوں نےکہاکہ ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا۔چیئرمین نیب نےکہاکہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا،جبکہ میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے۔
جسٹس گلزار احمد نےکہاکہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ چیئرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی نہیں ہٹا سکتے۔انہوں نےکہاکہ اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے آپ عوام کی خدمت کر سکیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ ایک سال گزر گیا لیکن نیب نے کچھ نہیں کیا،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آتا تو نیب انکوائری تو کرتا ہی ہے۔انہوں نےکہاکہ جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتےتو سہی۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہاکہ کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ نیب کے لیے یہ اطلاعات نئی نہیں تھیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کر دیا تو پھر بھی مواد موجود تھا۔انہوں نےسوال کیاکہ نیب نے بینک اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشنز پر کیا کارروائی کی؟۔
چیئرمین نیب نے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہاکہ ہم کارروائی ضرورکریں گے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ لوگوں کو امید تھی آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے۔انہوں نےکہاکہ سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا؟۔
جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ دیکھنا ہو گا عدالت کے پاس دستیاب ریکارڈکیاہے،انہوں نےکہاکہ کہ پھریہ دیکھنا ہوگاکیا بنیادی حقوق متاثرہوئے۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ فریقین کامتفق ہونابھی عدالت کواختیارنہیں دیتا،جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہا کہ کیا کسی غلط بیانی پراس کو نا اہل کرسکتےہیں؟ جس کےجواب میں اٹارنی جنرل نےکہاکہ عدالت نے شفاف ٹرائل کو بھی دیکھنا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا عدالت نے کیس میں کسی کوسننےسےانکارکیا؟جس پر اٹارنی جنرل نےکہاکہ بات کیس سننےکی نہیں فیصلےکی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ انشااللہ پرسوں تک کیس کی سماعت مکمل ہوجائے گی۔اٹارنی جنرل نےکہاکہ کیس کے لیے منتخب فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے۔انہوں نےکہاکہ درخواستیں کوورانٹو اور اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ ایسی درخواستوں کی سماعت کرنا عدالت کا معمول نہیں جبکہ ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔انہوں نےکہاکہ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی۔
جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے،انہوں نےکہاکہ ایسی قانونی مثال بھی دیں عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے استعمال نہ کیے ہوں۔
واضح رہےکہ سپریم کورٹ نے عدالت کی اٹارنی جنرل کو کل تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے،اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد نعیم بخاری جوابی دلائل دیں گے۔