تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تبادلے روک دیے

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے روکنے کا حکم جاری کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے عدالتوں میں جاری کیسز میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے مداخلت پر از خود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت کرتے ہوئے آج عدالت نے اہم حکم جاری کر دیا ہے۔

کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے روک دیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ایف آئی اے، نیب پراسیکویشن اور تفتیشی ریکارڈ سیل کرنے کا بھی حکم جاری کر دیا ہے، نیز نیب اور ایف آئی اے کو حکم دیا گیا ہے کہ تا حکم ثانی وہ کوئی بھی کیس عدالتی فورم سے واپس نہ لیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ای سی ایل میں شامل، نکالے گئے تمام نام اور طریقہ کار کی تفصیل پیش کی جائے، اور پراسیکیوشن سے متعلقہ 6 ہفتے میں کی گئی تقرریوں اور تبادلوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔

کیس کی مزید سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، پراسیکیوٹرز، ایڈووکیٹ جنرل، او رہیڈ آف پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے از خود نوٹس کی سماعت آئندہ ہفتے کے جمعے تک ملتوی کر دی۔

قبل ازیں، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں یہ مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ہم پراسیکیوشن کو ہٹانے کا معاملہ جاننا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، ڈاکٹر رضوان کو تبدیل کیا گیا، اور بعد میں ان کا ہارٹ اٹیک ہوا، عدالت کو ان معاملات پر تشویش ہے۔

چیف جسٹس نے کہا اخباری تراشے ہیں ای سی ایل سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ہم ان معاملات کو بھی جاننا چاہتے ہیں، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ایک ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا کہ یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت کے دوران کہا ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ انھیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے، پراسیکیوٹر کو کہا گیا کہ جو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے والا ہے، اس کے مقدمے میں پیش نہ ہوں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے، اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ اشتر اوصاف نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا اس پر ہمیں تشویش ہے اس لیے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا، آپ تعاون کریں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے، سیکڑوں لوگوں کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟ چیف جسٹس نے کہا ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کے لیے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں کر رہے، اس لیے ہم کسی قسم کی تعریف اور تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، آئین اور اللہ کو جواب دہ ہیں۔

Comments

- Advertisement -