تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

اسکول انتظامیہ نے طالبعلم کو گھر جانے سے روک دیا، وجہ کیا تھی؟

بھارت کے شہر کولکتہ میں ایک نجی اسکول کی انتظامیہ نے کئی گھنٹے طالبعلم کو زبردستی گھر جانے سے روکے رکھا والدین پریشان ہوگئے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ مغربی بنگال کے شہر کولکتہ کا ہے جہاں ایک نجی اسکول کی انتظامیہ نے صرف فیس جمع نہ کرنے پر طالبعلم کو چھٹی کے بعد کئی گھنٹے تک گھر واپس جانے سے روکے رکھا۔ چھٹی کے بعد گھر نہ پہنچنے پر بچے کے والدین پریشان ہوگئے اور اس کی تلاش میں نکل پڑے۔

والدین نے جب اسکول رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ان کا بیٹا وہاں موجود ہے اور اسکول انتظامیہ نے اسے زبردستی روک رکھا ہے۔

بچے کے والد شچدوا نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کو اسکول انتظامیہ نے زبردستی گھر جانے سے روکا لیکن ہمیں اس کی اطلاع نہیں دی جس نے ہمیں پریشانی میں مبتلا کردیا۔

شچدوا کا کہنا تھا کہ اس کے بیٹے کی فیس اگست سے ادا نہیں کی گئی ہے۔ مجھے پیر کو اسکول بلایا گیا تھا جہاں میں نے نومبر کے آخر تک تمام واجب الادا فیس دینے کی یقین دہانی کرا دی تھی اس کے باوجود اسکول انتظامیہ نے میرے بیٹے کو زبردستی اسکول میں کیوں روکا؟

دوسری جانب اس حوالے سے اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پرنسپل نے بچے کے والدین سے فون پر بات کی جس کے بعد طالب علم کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ اگر خاندان میں کوئی مسئلہ ہے تو والدین براہ راست اسکول آکر ان سے بات کر سکتے ہیں۔

 اسی واقعے کے تناظر میں بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی بنگال میں سرکاری اسکولوں کی حالت آئے روز بد سے بدتر ہونے کے بعد بچوں کے والدین اور سرپرست اپنے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے انہیں پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرانے پر مجبور کردیا ہے لیکن پرائیویٹ اسکولوں کی من مانیاں اور بے جا فیس وصولی کی پالیسی نے غریب طبقے کی کمر توڑ دی ہے

رپورٹ کے مطابق ریاستی دارالحکومت کولکتہ کے توپسیا، راجا بازار سمیت دیگر علاقوں میں واقع نجی اسکولوں کے علاوہ جنوبی 24 پرگنہ، شمالی 24 پرگنہ، ہاوڑہ اور ہگلی میں نجی اسکول مافیا بن چکے ہیں۔ جس کے باعث اسی نوعیت کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -