کوئی بھی شے اُس وقت اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہے جب نا سمجھی سے اُس کا استعمال کیا جائے اور ہمارے معاشرے میں اس کا بڑا رواج ہے۔ جس طرح ہم برس ہا برس پرانے نظامِ تعلیم پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں بالکل اسی طرح متعلقہ امور میں بھی لکیر کے فقیر بنے ہُوئے ہیں جس کا فائدہ تو شاید کوئی نہیں لیکن نقصانات بے شمار ہیں۔
تعلیمی صورتِ حال پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے، گویا طلبہ علم و فضل گھول کر پی رہے ہیں۔ کئی کتابیں، مشکل ترین نصاب جو عموماً طالب علموں کی طبعی عمر اور ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے ماہرینِ تعلیم اس حقیقت سے نظر چراتے ہیں کہ بتدریج ارتقا کا عمل زیادہ بہتر اور سود مند ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی کہ مشکل ترین نصاب بلند معیارِ تعلیم کی ضمانت ہرگز نہیں بن سکتا اور نہ ہی غیر دل چسپ نظامِ تعلیم، نصاب اورطریقہ ہائے تدریس طالبِ علموں میں سیکھنے اور پڑھنے لکھنے کے شوق کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ کم سے کم مدّت میں زیادہ سے زیادہ نصاب مکمل کرانا اور بے تحاشہ ہوم ورک دینا ہمارے تعلیمی نظام کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ایسے میں سالانہ امتحان ختم ہوتے ہی بچّے خوش ہوجاتے ہیں، سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ سَر سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔ اب انتظار شروع ہو جاتا ہے موسمِ گرما کی تعطیلات کا۔ لیکن یہ کیا؟ چھٹّیوں میں‌ ملنے والا بے تحاشہ کام ان کی ساری مسرتوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ اتنا سارا کام؟ چھٹیاں ختم ہو جائیں کام ختم نہ ہو۔ تفریح کے تمام پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
ادھر طالب علموں کے ساتھ ساتھ والدین بھی پریشان کہ بہت زیادہ ہوم ورک نے نہ صرف چھٹی کا تصوّر ہی مٹا دیا بلکہ تفریح کا لطف بھی غارت کر دیا۔ بچّوں اور والدین کی کیا بات ہے؟ ٹیوٹر بھی شاکی ہیں کہ بچّوں کی ساری چھٹیاں تو اسی ہوم ورک کی نذر ہو جاتی ہیں۔
ایک بیوہ خاتون جو گھر پر بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں کہ رہی تھیں کہ سارا سال انتھک محنت کرتی ہوں، اپنے بچّوں کے تعلیمی اخراجات ٹیوشن ہی سے پورے کرتی ہوں۔ ہر سال بچّوں سے وعدہ کرتی ہوں کہ چھٹّیوں میں تفریح کے لیے کہیں لے جاؤں گی لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ بچّوں کو اتنا ہوم ورک دیا جاتا ہے کہ نہ تو وہ چھٹیوں کا لطف اٹھاتے ہیں اور نہ ہی میں اپنے بچّوں سے کیا وعدہ پورا کر سکتی ہوں۔ ساری چھٹیاں یوں ہی تمام ہو جاتی ہیں۔
بچّوں کو الگ شکوہ ہے کہ کیا فائدہ ایسی چھٹیوں کا جس میں ہم سارا وقت ہوم ورک ہی کرتے رہیں۔ شاید اعتراض ہوم ورک پر نہیں بلکہ بہت زیادہ اور بے مقصد ہوم ورک پر ہے۔
عدیل کو تواس بات پر سخت غصّہ آتا ہے کہ ”اتنا زیادہ ہوم ورک ملتا ہے روز امّی صبح کام کرنے بٹھا دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے گھر میں ہی اسکول کھلا ہوا ہے۔ لکھنے کا کام اتنا سارا ہوتا ہے کہ ہاتھوں میں‌ درد ہو جاتا ہے۔ کام ختم کرنے کے چکر میں جلدی جلدی لکھتا ہوں تو لکھائی خراب ہو جاتی ہے اور امّی سے ڈانٹ پڑتی ہے۔ کبھی کبھی سزا بھی ملتی ہے۔ فضول ہیں ایسی چھٹیاں جس میں ہمیں صرف اور صرف کام نمٹانے کی فکر ہو اور روز ہمیں‌ بستہ کھول کر بہت سا وقت کتابوں‌ کاپیوں کو دینا پڑے، اور اپنی چھٹیاں انجوائے ہی نہ کرسکیں۔
بعض والدین سمجھتے ہیں کہ بچّوں کو ہوم ورک ملنا چاہیے تاکہ وہ صرف اور کھیل کود اور تفریح میں‌ نہ لگے رہیں جب کہ والدین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جن کا خیال ہے کہ چھٹیوں کا کام بالکل نہیں ملنا چاہیے، لیکن ایسے والدین بھی ہیں جو صرف اتنے ہوم ورک کے حق میں ہیں کہ بچّے اپنی درسی کتب سے دور نہ رہیں اور چھٹیوں کے بعد اسکول کھلیں تو اُنھیں مسئلہ نہ ہو۔ اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔
موسمِ گرما کی تعطیلات میں ہوم ورک تو ملنا چاہیے، لیکن ایسا کہ بچّوں پر گراں نہ گزرے اور ان کی چھٹیوں کو نہ صرف کارآمد بنا دے بلکہ وہ اسے خوشی خوشی نمٹائیں اور ان کو کھیل کود اور گھومنے پھرنے کے لیے بھی وقت ملے۔ ایسا ہوم ورک تخلیقی کام کی صورت ہی ممکن ہے۔ جس سے بچّوں کی خفتہ صلاحییتیں بھی ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس ضمن میں چند تجاویز ہیں مثلاً ہوم ورک چند سوالوں کی صورت ہو۔ مثلاً روزانہ اخبار کی تین ایسی خبریں لکھنا جو بہت اہم ہوں۔ اس سے بچؑوں میں اخبار بینی کا شوق ہوگا۔ دو ماہ تک مسلسل اخبار کا مطالعہ اُن کی عادت بن جائے گا۔ چھٹیوں میں آپ کے بہترین مشاغل کیا رہے اس کی تفصیل، آپ نے جن تفریحی مقامات کی سیر کی اُن کے بارے میں لکھیے؟ اور یہ بھی بتائیے کہ وہاں آپ کس چیز سے متاثر ہوئے؟ کون سی بات پسند نہیں آئی اور کیا کمی محسوس کی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بچوں کے ذہن کو بیدار کریں گے اور وہ اپنے تجربے کو بیان کرنے کے ساتھ اپنے مشاہدے کو تحریک دینا سیکھیں گے۔ یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ چھٹیوں میں کون کون سی غیر نصابی کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کیا اور کون کون سی دستاویزی اور بامقصد تفریحی فلمیں دیکھیں؟ موسمِ گرما کی تعطیلات کی ڈائری لکھنے کو بھی کہا جاسکتا ہے جس میں بچے اپنے معمولات بلا ناغہ لکھیں۔
بے تحاشہ اور بے فائدہ ہوم ورک بچوں کو بوجھ اور جھنجھٹ معلوم ہوتا ہے اور وہ اُن کے دماغ کو بوجھل کردیتا ہے اور طبیعت میں بیزاری کا سبب بنتا ہے۔ بڑے تعلیمی ادارے بالخصوص پرائیویٹ اسکول تو کسی حد تک اس کا خیال رکھنے لگے ہیں، لیکن سرکاری اسکول اور عام نجی تعلیمی ادارے جو ہر علاقے میں قائم ہیں، اب بھی کام، کام اور صرف کے اصول پر کاربند ہیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ چھٹیوں کے بعد جب طالب علم دوبارہ اسکول آئیں تو پڑھائی میں اُن کی دل چسپی پہلے سے زیادہ بڑھ جائے۔

Comments