تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

دس سال سے کھانے کے خوف میں‌ مبتلا بچے کا علاج ڈاکٹر نے کیسے کیا؟

لندن: ایک ایسے بچے کا علاج آخر ممکن ہو سکا ہے جو گزشتہ دس برسوں‌ سے ایک تکلیف دہ مرض میں مبتلا تھا، جس کی وجہ سے وہ کوئی کھانا کھا نہیں‌ پاتا تھا، اور وہ صرف دہی اور ایک خاص قسم کی ڈبل روٹی پر گزارا کر رہا تھا۔

تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں 12 سالہ بچے ایشٹن فشر کے بارے میں جب کوئی یہ سنتا تھا کہ وہ صرف دہی اور ڈبل روٹی کھا سکتا ہے، تو حیران رہ جاتا تھا، لیکن بچے کی بدقسمتی یہ تھی کہ نہ صرف والدین بلکہ عام ڈاکٹرز بھی دس سال تک یہ سمجھتے رہے کہ وہ بس کھانے پینے میں نخرے دکھاتا ہے۔

تاہم یہ گزشتہ ماہ جولائی میں ایک ماہر نفسیات نے نوّے منٹس کے سیشن میں معلوم کیا کہ ایشٹن فشر دراصل کھانے سے بچنے کے ایک مخصوص لیکن نایاب مرض (ARFID) میں مبتلا ہے، جو فوڈ فوبیا یعنی کھانے کے خوف کی ایک قسم ہے، اس بیماری کے سبب وہ صرف پھلوں کے اجزا والی دہی اور ایک خاص برانڈ کی سفید ڈبل روٹی ہی کھاتا تھا۔

شروع شروع میں ایشٹن کے والدین سمجھے کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح کھانے میں ’نخرے‘ دکھا رہا ہے لیکن تمام کوششوں کے باوجود ایشٹن کی حالت بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتی گئی، وہ علاج کےلیے ایشٹن کو ہمیشہ عام ڈاکٹروں کے پاس لے جاتے رہے جو یہ مسئلہ سمجھ ہی نہیں سکے اور یہ مسئلہ جوں کا توں موجود رہا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایشٹن کو کھانا پکنے کی خوش بو سے بھی خوف آنے لگا، لہٰذا اس نے گھر والوں کے ساتھ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا اور سب سے الگ تھلگ اپنے لیے لائی گئی مخصوص ڈبل روٹی اور دہی کھا کر گزارا کرنے لگا۔

اسکول میں داخل ہونے کے بعد بھی اس کا یہی معمول برقرار رہا اور اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی کچھ نہیں کھایا۔ نتیجتاً وہ اسکول میں کچھ خاص دوست بھی نہیں بنا سکا۔

والدین کا کہنا تھا کہ جب ہم اسے کھانے کو کوئی چیز دیتے تھے تو وہ صدمے کی کیفیت میں چلا جاتا تھا، اس کا رنگ خوف سے سفید پڑ جاتا، تاہم اب اس کی طبیعت بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور وہ آہستہ آہستہ سینڈوچز، چپس، روسٹ اور چکن وغیرہ بھی کھانے لگا ہے۔

یہ دراصل ایسے ممکن ہوا کہ ایشٹن کی فیملی کو خوراک سے متعلق امراض کے ایک اسپیشلسٹ فیلکس اکونوماکیز سے واسطہ پڑا، وہ ایک ماہر نفسیات ہیں اور اپنے مریضوں پر ہپنوتھراپی کا استعمال کرتے ہیں، انھوں نے ایشٹن کو آخر کار دھیرے دھیرے کھانے کی نئی چیزیں آزمانے کی طرف مائل کیا، اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئے۔

Comments

- Advertisement -