تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

معروف شاعرہ شہناز نُور کراچی میں انتقال کرگئیں۔ شہناز نور نے اپنی خوب صورت شاعری سے جہانِ سخن میں نام و مقام بنایا اور اپنے دل کش ترنم کے سبب بھی ادبی حلقوں اور باذوق سامعین میں مقبولیت حاصل کی۔

14 مارچ 2021ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والی شہناز نور 10 نومبر 1947ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ شہناز نور نے سکھر میں قیام کے دوران تعلیم مکمل حاصل کی۔ ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والی شہناز نور کو بھی ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہوگیا تھا۔ انھوں نے پہلا شعر 13 برس کی عمر میں کہا تھا۔ یہ مشقِ سخن جاری رہی اور شہناز نور کی پہلی غزل رسالہ ’’کلیم‘‘ میں 1974ء میں شائع ہوئی۔

شہناز نور نے اپنا کلام شعری مجموعے ’’نشاطِ ہجر‘‘ میں یکجا کیا تھا۔ ان کا یہ مجموعہ 2004ء میں منظرِعام پر آیا۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں‌ جس کا مطلع بہت مشہور ہوا۔

کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے

کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو
کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے

عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے

کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے

نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہوں نورؔ
بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے

Comments

- Advertisement -