بدھ, نومبر 13, 2024
اشتہار

جیدی جانتا بھی کیسے!

اشتہار

حیرت انگیز

اسلم بھائی کے دروازے بلاتخصیص ہر مرد و زن کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ میں ہوں ناں کی عملی تفسیر بنے اسلم بھائی اپنے در پر آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اخلا ق اور مروّت آپ کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ شاید ہی کبھی کوئی اُن کے در سے مایوس گیا ہو۔

مسئلہ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، کسی اپنے کا ہو یا پرائے کا، حل کروا کے انہیں بے پایاں مسرت ہوتی ہے۔ بالخصوص خواتین کو میں ہوں ناں کی پیشکش اُن کے لیے کسی دلربا حادثے سے کم نہیں ہوتی۔ اسلم بھائی کی خوش اخلاقی کی خواتین معترف ہیں مگر جس طرح سارے موسم یکساں نہیں ہوتے اسی طرح ساری خواتین ایک سا مزاج نہیں رکھتیں۔ بعض کو اسلم بھائی کی بے تکلفی گوارا ہوتی ہے لیکن جب اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی نوعیت کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں تو انہیں گراں گزرتا ہے۔ تب تنک ہی نہیں سنجیدہ مزاج خواتین بھی اُنہیں اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیتی ہیں تو اسلم بھائی مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔ اب وہ انہیں کیسے بتائیں کہ وہ اپناکام ہی تو کر رہے ہیں۔ وہ بھی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر۔

اسلم بھائی کتنے ہی باتونی کیوں نہ ہوں یہ بہت بڑی سچائی ہے کہ اخلاق کی طرح اُن کا کردار بھی بلند ہے، بس وہ اپنی ہر ایک کے کام آنے کی عادت سے مجبور ہیں۔

- Advertisement -

اسلم بھائی کو لوگ مسیحا کہتے تھے اور اپنی مسیحائی پر انھیں بڑا ناز تھا جو بے جا بھی نہیں تھا۔ ہر مسئلے کا حل اُن کے پاس تھا۔ مشکل ترین مسئلہ بھی کبھی وہ چٹکی بجاتے حل کر دیتے تو لوگ حیران رہ جاتے کہ آ خر ان کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھری ہے جسے گھماتے ہی وہ ہر درد کا درماں بن جاتے ہیں۔ ایسی کون سی طاقت ہے جو اسلم بھائی کو سرخرو اور اُن سے تعاون کے خواہست گاروں کو مطمئن کر دیتی ہے۔ مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی کوئی سراغ نہ لگا سکا۔ عرصۂ دراز تک یہ راز راز ہی رہا کہ آخر اسلم بھائی کے پاس ایسا کون سا ہنر ہے جس کے بل پر مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا سنتے ہی اسلم بھائی کہتے ہیں، ’’میں کس لیے ہوں“؟ اور پھر واقعی اسلم بھائی پریشان حالوں کے لیے فرشتۂ رحمت ثابت ہوتے ہیں۔

جیدی کی فطرت میں بچپن ہی سے بہت تجسس تھا۔ اُس کی دادی تو اسے کہتی ہی ننھا جاسوس تھیں۔ رہی سہی کسر ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں نے پوری کر دی۔جس بات کی دھن لگ جاتی اس کا سراغ لگا کر ہی دم لیتا۔ ان دنوں اسلم بھائی اُس کی سراغ رسانی کی زد پر تھے۔ جیدی وہ بھید جاننا چاہتا تھا جس کے سبب اسلم بھائی سب کے دل کا چین بنے ہوئے تھے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے جیدی کو خیال آیا کہ اسلم بھائی ہی کیوں، میں کیوں نہیں؟ بس پھر کیا تھا بازیافت کا عمل شروع ہو گیا۔ عقل کے گھوڑے دوڑائے، کھوج کے سمندر میں چھلانگ لگائی، بالآخر پندرہ یوم کی کاوشِ پیہم کے بعد وہ نکتہ جیدی کے ہاتھ آ ہی گیا جسے وہ اپنی کام یابی کی پہلی کڑی کہتا اور پھر اللہ نے موقع بھی فراہم کر دیا۔

ہُوا یوں کہ جیدی اپنے انٹر کے سرٹیفکیٹ کے سلسلے میں بورڈ آفس گیا۔ دو تین مقامات پر اسے یوں محسوس ہُوا گویا اسلم بھائی یہیں کہیں موجود ہیں۔ جب کہ کچھ ہی دیر پہلے وہ انہیں 105 درجہ بخار میں چھوڑ کر آیا تھا۔ امی نے چلتے وقت تاکیداً کہا تھا کہ اسلم بھائی بیمار ہیں، کئی مرتبہ وہ ہمارے کام آئے ہیں اُن کی عیادت کرتے ہوئے اپنے کام پر جانا۔“ اسلم بھائی بسترِ علالت پر ہیں تو پھر یہاں اُن کی موجودگی کا احساس مجھے کیوں ہورہا ہے؟ جیدی نے خود سے سوال کیا اور پھر کچھ ہی دیر کے مشاہدے اور غور و فکر کے بعد اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔

ایک اسلم بھائی پر ہی کیا موقوف ہے ایسے کئی افراد ہر محلے اور ہر ادارے میں اپنی مسلمہ حیثیت سمیت نظر آتے ہیں۔ وہ خاموش ہوں تب بھی اُن کا انگ انگ پکار رہا ہوتا ہے:

میں چپ رہوں بھی تو نغمہ میرا سنائی دے

ایسے لوگ ”میں کس لیے ہوں“ کی متحرک تصویر ہوتے ہیں۔ اس ایک جملے کی ادائیگی کے لیے کئی توانائیاں صرف کرنی پڑتی ہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جو بصد افتخار ”میں کس لیے ہوں‘‘ کی مخلصانہ پیشکش کرتے ہیں یا وہ جو اس راز سے واقف ہیں کہ خوشامد اور پی آر کے زور پر نہ صرف کام نکلوایا جا سکتا ہے بلکہ خود کو بھی منوایا جا سکتا ہے۔ ہاں بعض لوگ اپنی لیاقت اور منصب کی بنیاد پر بھی ”میں کس لیے ہوں“ کے دعوے دار ہوتے ہیں مگر وہ جو محض ذاتی تعلقات اور خوشامد کی بنیاد پر بہت اعتماد سے پیشکش کر دیتے ہیں۔ اس وقت اُن کی حالت بھی اسلم بھائی جیسی ہوجاتی ہے جب ذاتی تعلقات بھی کام نہیں آتے اور چرب زبانی بھی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ اس لیے ”میں کس لیے ہوں“ کا دعویٰ بھی بودا ثابت ہوجاتا ہے۔

سلیم صاحب کو تسلی دے کر بخار کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلم بھائی بورڈ آفس پہنچے تھے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ظہیر صاحب گزشتہ ہفتے ہی سبک دوش ہوگئے۔ یہ سنتے ہی اسلم بھائی پر تو گویا سکتہ طاری ہوگیا۔ وہ جو بازی جیتنے آئے تھے اب ہارے ہوئے جواری کی طرح شکستہ قدموں سے واپس جانے پر مجبور تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سلیم صاحب کو وہ جو یقین دلا آئے تھے کہ ”آپ کا کام ہو جائے گا میں کس لیے ہوں“ اب اُن سے جا کر کیا کہیں گے۔ یہی کہ”میں اس لیے ہوں!‘‘ اور کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا کہ اسلم بھائی اپنے ”میں کس لیے ہوں“ کا بھرم رکھ لیتے۔ شدید بخار میں یہاں تک آنے میں اسلم بھائی نے اتنی تھکن محسوس نہیں کی تھی جتنا احساسِ شکست نے اُنھیں تھکا دیا تھا۔

جیدی جو اسلم بھائی کے آنے سے پہلے اُن کی عدم موجودگی کے باوجود اُن کی موجودگی کے احساس سے پریشان تھا، خاموشی سے ایک کونے میں کھڑا صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے جب معاملے کی تہ تک پہنچا تو اسلم بھائی کی شکستہ حالی نے اسے مغموم کر دیا۔ ”بے چارے اسلم بھائی۔ کیسے دوڑ دوڑ کر ہر ایک کے کام آتے ہیں۔ آج کتنے لاچار نظر آرہے ہیں۔ ایک ایک کر کے اسلم بھائی کی ساری نیکیاں جیدی کو یاد آنے لگیں۔

جیدی نے ظہیر صاحب کی جگہ تعینات مجید صاحب پر ایک نظر ڈالی جو اس کے بہت قریبی دوست کے والد تھے اور اسے بھی اپنے بچّوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اچانک ہی جیدی نے ایک فیصلہ کر لیا۔

اس سے پہلے کہ اسلم بھائی نکل جاتے، جیدی نے اُنھیں جا لیا، ”قبلہ اسلم بھائی کہاں چلے۔ یہاں تشریف لائیے۔“ اپنے خیالوں میں مگن اسلم بھائی نے چونک کر جیدی کو دیکھا جو اُن کا ہاتھ تھام کر مجید صاحب کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا تھا۔

جب وہ مجید صاحب کے پاس پہنچے تو ”اب یہاں کیا رکھا ہے“ کہتے ہوئے اسلم بھائی نے سرد آہ کھینچی۔ ”میں کس لیے ہوں۔“ جیدی نے بے ساختہ کہا جسے سن کر اسلم بھائی ایک لمحہ کو ٹھٹھکے لیکن اگلے ہی پل نہایت محبت آمیز نظروں سے جیدی کو یوں دیکھا گویا اپنے جاں نشین کو دیکھ رہے ہیں۔ یکایک اُن کی چال کی لڑکھڑاہٹ ختم ہو گئی۔ اب وہ پُراعتماد قدموں سے جیدی کے ہم قدم چل رہے تھے اور ایک گھنٹے بعد فاتحانہ انداز میں جیدی کے ساتھ سلیم صاحب کے گھر جا کر اُن کو ان کا کام ہو جانے کا مژدہ سنارہے تھے۔ جواباً سلیم صاحب نے اسلم بھائی کو سپاس نامہ پیش کیا۔ ادھر جیدی جس کے چہرے پر اس وقت وہی خوشی نظر آرہی تھی جو وہ ایسے موقعوں پر اسلم بھائی کے چہرے پر دیکھا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ انتہائی بے چینی سے اسلم بھائی کو دیکھ رہا تھا کہ کب وہ سلیم صاحب کو بتاتے ہیں کہ آج کی اُن کی کام یابی میں جیدی کا کردار بڑا اہم ہے اور یہ بھی کہ جیدی کے تعاون کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

اسلم بھائی سے توقع رکھتے وقت جیدی یہ بھول گیا تھا کہ یہ ان کی پہلی ناکامی ہے آخری نہیں اور یہ کہ اپنے مشن پر ڈٹے رہنے والے ناکامی ہی سے کام یا بی کا راستہ نکالتے ہیں۔ بیشک اپنے تئیں وہ اسلم بھائی کے وارث ضرور بن گئے تھے مگر سپر پاور اب بھی اسلم بھائی کے پاس تھی کہ مجید صاحب نے ان کا کام محض جیدی کی محبت میں نہیں کیا تھا بلکہ اس کام کے عوض انہوں نے مجید صاحب کا ان کے کام سے بھی بڑا کام کر دیا تھا، کب اور کس وقت یہ جیدی جان ہی نہیں سکا۔

جانتا بھی کیسے؟ جیدی لاکھ شیر بن جائے مگر بی بلّی سے سیکھا سبق اسلم بھائی کیسے بھول سکتے تھے۔ اگر بلّی شیر کو پیڑ پر چڑھنا سکھا دیتی تو وہ شیر کی خالہ کیسے کہلاتی؟

(انشائیہ نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کی ایک شگفتہ تحریر)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں