تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

وہم کی دوا کرے کوئی…

ہمارے معاشرے میں دیگر امراض کی طرح وہم کا مرض بھی عام ہے جس نے زندگی کے سفر کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ توہّم پرستی کو پروان چڑھانے میں میڈیا کا بھی کردار ہے، بالخصوص پڑوسی ملک کی تہذیب و ثقافت اس بری طرح ہم پر اثر انداز ہوئی کہ ہم اپنی چال بھی بھول گئے۔

بارات آتے ہی آئینہ ٹوٹ گیا۔ اس اطلاع کے ساتھ فرمان بھی جاری ہوگیا کہ بارات واپس جائے گی کہ آئینہ ٹوٹنا بدشگونی ہے، اس لیے دلہن منحوس قرار پائی، اب وہ تمام عمر بن بیاہی ہی بیٹھی رہے۔ شگون صنفِ نازک سے ہی کیوں لیا جاتا ہے، مرد اس سے مبرا کیوں ہے؟ یہ عقدہ کبھی نہ کھل سکا۔

ہمارے معاشرے میں بھی وہم کا شکار متحرک کردار اپنے واہموں کی روشنی ہی میں نیک و بد کا اندازہ لگا کر بہت سے تاریک فیصلے کر کے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ بڑی اماں اور چھوٹی کا شمار بھی ایسے ہی کرداروں میں ہوتا ہے جن کے واہمے پلو سے بندھے رہتے ہیں۔

زین بھیا آندھی طوفان کی چال چلتے ہوئے آئے جس کے نتیجے میں بڑی اماں کی چپل پر چپل چڑھ گئی۔ ”آج ہی میں نے تہیہ کیا تھا کہ ہفتہ بھر تک گھر سے باہر قدم بھی نہیں نکالوں گی، دیکھو تو دلہن کیسے چپل پر چپل نے چڑھ کر میرے باہر جانے کا سامان کر دیا۔ دیکھو آج میری ڈولی کس کی ڈیوڑھی پر جاکے اترتی ہے۔

”بس تو پھر آجائیے شام کو ہمارے گھر بینا کے سسرال والے آرہے ہیں۔“ ثمر خالہ نے کہا، ”جُگ آؤں گی اور کیوں نہ آؤں؟ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے۔“

دو سالہ حرا کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر بڑی اماں نے لپک کر اس کے ہاتھ سے قینچی چھینی، ناسمجھ بچّی تڑپ کر آگے بڑھی اور قینچی دوبارہ اٹھالی تو بڑی اماں نے اس زور سے قینچی چھینی کہ حرا کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ حرا بلک بلک کر رونے لگی۔

”اے بی ہاتھ سے قینچی تو رکھ دو، کیا امّاں باوا میں فساد کرواؤ گی؟ سکھ سے رہتے اچھے نہیں لگ رہے تم کو۔“

بڑی اماں دیکھیے حرا کے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے۔ منجھلی بھابھی نے بیٹی کو اٹھایا تو وہ کہنے لگی، ”دیکھ لو میں نے کیا کہا تھا آج پہلی مرتبہ تم نے میرے سامنے زبان کھولی ہے، ہو گئی ابتدا جھگڑے کی۔ اب دیکھنا رات تک تم میاں بیوی میں بھی چخ چخ ہوگی۔“

”اللہ نہ کرے بڑی امّاں آپ کے وہم پر خاک۔ منجھلی بھابھی سے برداشت ہی نہ ہو سکا۔

”ہائے ہائے صغیر کی پوتی اُسے کھا گئی۔“

”ہائیں کیا کہہ رہی ہیں آپ، صغیر چچا کی نومولود پوتی کیا آدم خور ہے؟ جو اپنے دادا کو کھا گئی۔“

منجھلی دلہن نے اپنے میاں کی لاڈلی دادی کو حیرت سے دیکھا؛ ”منجھلی دلہن! تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔ اِدھر بچّی دنیا میں آئی اُدھر دادا نے رخصت لی۔ کیسی سبز قدم اور منحوس لڑکی ہے۔“

”بڑی امّاں صغیر چچا کی موت اسی وقت لکھی تھی اس میں میں بچّی کا کیا قصور؟

”ہاں بھئی تم تو کہو گی، خود تمہاری بہن بھی تو اپنے چچا کی ساس کو نگل چکی ہے۔“

”بڑی اماں اگر مہرو کے عقیقے کے روز چچی جان کی امّی کا انتقال ہو گیا تو بھلا اس کا کیا قصور؟ آپ اور چھوٹی حد سے زیادہ وہمی ہیں بلکہ وہم کی پتلیاں ہیں، چھوٹی بھی تو آپ کی لاڈلی پوتی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں یہ کہ بڑی اماں کی جانشین ہے چھوٹی۔“

چھوٹی آپا کے واہموں نے بھی تو گھر بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہمی تو وہ خیر بچپن ہی سے تھیں لیکن اب پڑوسی ملک کے ڈراموں نے اُن کی آتشِ وہم کو خوب بھڑکایا تھا، نازک اندام چھوٹی آپا جی بھر کر وہمی تھیں۔ انہیں اتنے عجیب و غریب اور توانا وہم ستاتے تھے کہ دیکھنے اور سننے والے دم بخود رہ جاتے۔ منجھلی بھابھی کو اُن کے واہموں سے سخت کوفت ہوتی۔ اسی بات پر اکثر دونوں میں کھٹ پٹ ہو جاتی اور وہ دن تو منجھلی بھابھی بھلائے نہیں بھولتیں جب، کلفٹن جانے کا پروگرام کئی روز سے ٹل رہا تھا۔ اُن دنوں موسم بھی توایسا تھا کہ سمندر پر جانے کی اُمنگ موجوں کی روانی کی مانند بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن مسائل اور ذمہ داریاں شوق کی راہ کا بھاری پتھر ثابت ہورہے تھے۔ کبھی کوئی کسی مسئلے کا شکار ہوتا، کبھی کسی کی ذمہ داری مہلت نہیں دے رہی تھی، جب کہ طے یہ تھا کہ تمام گھر والے پکنک پر جائیں گے۔ اسی ادھیر بن میں بالآخر اتوار کے دن کلفٹن جانے کے پروگرام کو حتمی شکل دے دی گئی۔

روانگی کے وقت کوّے نے منڈیر پر کائیں کائیں کی تان لگا دی جسے سنتے ہی آن کی آن میں چھوٹی آپا نے اعلان کر دیا۔

”آج تو ہم گھر سے باہر کہیں نہیں جائیں گے مہمان آئیں گے۔“

منجھلی بھابھی نے جو یوں اچانک پروگرام خطرے میں پڑتے دیکھا تو چڑ ہی تو گئیں۔ ”کیوں بی چھوٹی! تمہیں کیا الہام ہوا ہے؟“

”الہام کی کیا بات ہے، برسوں پرانی ریت ہے، دیکھ لیجیے گا آج کوئی ضرور آئے گا۔“

”آخر کون آئے گا؟ جس کے لیے تم نگاہیں فرشِ نگاہ کیے بیٹھی رہو گی۔“ بھابھی چٹخ کر بولیں۔

”ابھی دنیا لوگوں سے خالی تو نہیں ہُوئی پھر ہم آج کل اسمارٹ بھی تو ہو رہے ہیں، شاید کوئی ہمیں ہی دیکھنے آجائے۔“

”ہاں ہاں کیوں نہیں عجوبۂ روزگار ہو تم، چھوٹی آپا کے چھچھور پن پر بھابھی کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ کتنی گھٹیا ہے یہ چھوٹی بھی۔ جی ہی جی میں چھوٹی آپا کی شان میں قصیدے پڑھتی منجھلی بھابھی احتجاجاً کمرے میں بند ہو گئیں۔

اور پھر یوں ہُوا کہ دنوں ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں چھوٹی آپا منجھلی بھابھی کی تضحیک و تحقیر بھری نظروں اور باتوں کا نشانہ بنی رہیں۔

”اے بی چھوٹی کوئی کوا، بکرا، بیل کوئی اپنا، پرایا کوئی بھی تو نہیں آیا تمہیں دیکھنے۔ ہماری پکنک کا لُطف الگ غارت ہوا۔

چھوٹی آپا کو آئے دن کسی نئے کام کا ہُلہلا اٹھتا۔ اُس روز بھی وہ بہت پُرجوش تھیں کہ یکایک اُن کی بائیں آنکھ پھڑکنے لگی اور چھوٹی آپا نے شور مچا دیا ”ہماری بائیں آنکھ پھڑک رہی ہے، اللہ خیر کرے، ہم نئے منصوبے پر کام آج تو ہرگز بھی شروع نہیں کریں گے جانے کیا انجام ہو؟ ہم ساری جمع پونجی لگا دیں اور رقم بھی ڈوب جائے، چلو اچھا ہی ہوا کم بخت صبح ہی پھڑک اٹھی کہیں دوپہربعد پھڑکتی تو ہم بیچ مُنجھدار میں بیٹھے نیا پار لگنے کا انتظار کرتے رہ جاتے۔“

منجھلی بھابھی کو چھوٹی آپا کے واہموں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ تلملا کر کہنے لگیں۔

”چھوٹی! بائیں آنکھ میں چیونٹی تو نہیں چلی گئی جو وہ پھڑک رہی ہے، جواز تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، اسے بد شگونی قرار دے کر سارے کام چھوڑ کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا دانش مندی تو نہیں۔ اب وہم اور دانش میں کوئی قرابت داری بھی تو نہیں اس میں تمہارا کیا قصور؟“

منجھلی بھابھی کے ترکش سے نکلنے والا تیر چھوٹی آپا کے دل پر ترازو ہوگیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں کے درمیان محاذ کھل گیا۔ یہ آئے دن کا معمول تھا، دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر قائم تھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اب چھوٹی آپا خود بھی اپنی وہمی طبیعت سے الجھنے لگی تھیں جو نو عمری ہی سے ان کی عمرکے ساتھ ہی پروان چڑھی تھی۔ اب اتنی پختہ ہوچکی تھی کہ وہ چاہنے کے باوجود اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھیں۔ وہم تو اُن کے منہ کا وہ نوالہ تھا جسے نہ وہ اُگل سکتی تھیں اور نہ ہی نگل سکتی تھیں۔ اس کشمکش کے باوجود ان کے دن کا بیشتر حصہ واہموں کی نذر ہو جاتا۔

وہم اگر شدت اختیار کر جائے تو بیماری میں ڈھل جاتا ہے جس سے اور کئی نفسیاتی عارضے جنم لیتے ہیں جن کا علاج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ”وہم کا دارو تو لقمان کے پاس بھی نہیں۔“ سچ یہی ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو ایک دن یہ لاعلاج مرض بن جاتا ہے۔ اگر مضبوط قوتِ ارادی ہو تو اس خامی پر قابو پایا بلکہ اس سے چھٹکارا حاصل کیاجا سکتا ہے۔

توہم پرستی نہ صرف وہمی کا جینا محال کرتی ہے بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی زندگی بھی دشوار بنا دیتی ہے۔ وہمی ہر سطح پر خسار ے میں جاتے ہیں۔منجھلی بھابھی کا قول بجا کہ وہم خطرناک سے خطرناک بیماری سے بڑھ کر ہولناک مرض ہے جو کبھی کبھی تو بالکل اچانک حملہ آور ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات تو جان کے ساتھ ہی جاتا ہے۔

(شائستہ زریں کی تحریر)

Comments

- Advertisement -