تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

نام وَر ادیب، شاعر اور نقّاد پروفیسر شمیم حنفی انتقال کرگئے

اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد، ڈراما نگار، شاعر اور مترجم ڈاکٹر شمیم حنفی انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 81 برس تھی۔ شمیم حنفی کا شمار اردو کے نام وَر نقّادوں میں کیا جاتا ہے۔

شمیم حنفی 1938ء میں سلطان پور(یو پی) میں پیدا ہوئے تھے اور ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے شمیم حنفی نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ انھیں زمانہ طالبِ علمی میں جن صاحبانِ علم و فضل سے سیکھنے کا موقع ملا ان میں فراق گورکھپوری، احتشام حسین، ستیش چندر دیب جیسی شخصیات شامل ہیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد شمیم حنفی چھے سال علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک ہوئے اور بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوگئے، وہ 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اس تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

شمیم حنفی نے تنقید کے علاوہ خاکے، ڈرامے اور کالم بھی لکھے۔ انھوں‌ نے تراجم اور کئی اہم کتابوں کی ترتیب و تدوین کا کام بھی انجام دیا۔

شمیم حنفی کو بھارت اور پاکستان کے علاوہ اردو ادب کے حوالے سے عالمی سطح پر منعقدہ تقاریب میں مدعو کیا جاتا تھا۔ انھوں نے پاکستان میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے علاوہ متعدد ادبی تقاریب میں شرکت کی اور زبان و ادب کی ترویج و فروغ کے لیے کوشاں رہے۔

شمیم حنفی کی تصانیف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘، ’’غزل کا نیا منظر نامہ‘‘، ’’کہانی کے پانچ رنگ‘‘، ’’اردو کلچر اور تقسیم کی وراثت‘‘، ’’سرسید سے اکبر تک‘‘، ’’منٹو حقیقت سے افسانے تک‘‘، ’’اقبال کا حرفِ تمنا‘‘، اور خاکوں کی کتاب ’’ہم سفروں کے درمیان‘‘ ان کی چند نہایت اہم اور قابلِ ذکر کتب ہیں۔ شمیم حنفی نے تراجم کے علاوہ ڈرامے اور بچّوں کے لیے بھی کہانیاں تخلیق کیں۔

Comments

- Advertisement -