تازہ ترین

نوازشریف اور پارٹی نے حکومتی مطالبہ مسترد کردیا، شہبازشریف

لاہور: مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کا کہنا ہے کہ محکمہ داخلہ نیب اور نیب محکمہ داخلہ کی طرف گیند پھینک رہا ہے، نوازشریف کی صحت کو شٹل کاک بنا دیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاہور میں نوازشریف کی صحت سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ رات کو فیصلہ کیا فی الفورعدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ 20 دن ہوگئے نوازشریف کی صحت پرسنگ دلی سے کام لیا جا رہا ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیمنٹی بانڈ کی آڑ میں قوم کو ایک اور دھوکے کی طرف لے جا رہے ہیں، نوازشریف اور پارٹی نے حکومتی مطالبہ مسترد کردیا۔

مسلم لیگ ن کے صدر نے کہا کہ صحت، بیماری زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، نوازشریف استقامت کے ساتھ صحت کی صورت حال کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 6 جولائی 2018 کو نوازشریف، مریم نواز کے خلاف ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا تھا، فیصلے کے وقت نوازشریف اہلیہ کی تیمارداری میں مصروف تھے، 13جولائی 2018 کو نوازشریف بیٹی کو لے کر پاکستان آئے، نوازشریف کو بیٹی کے ساتھ سیدھا اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔

شہبازشریف نے کہا کہ دو عدالتوں نے نوازشریف کو ملک کے اندر اور باہر علاج کی اجازت دی ہے، 3 بار وزیراعظم بننے والے نوازشریف سے انڈیمنٹی بانڈ مانگا جا رہا ہے، 6 جولائی 2018 کے فیصلے پر میاں صاحب کسی بانڈ کے بغیر واپس آئے، جیل گئے۔

مسلم لیگ ن کے صدر نے کہا کہ اللہ بھلا کرے ڈاکٹر عدنان کا جو نوازشریف کے پلیٹ لیٹس چیک کراتے رہے، ان لوگوں کا بھی احسان مند ہوں جنہوں نے اس رات میری مدد کی، شہبازشریف کی ان لوگوں سے مراد کون؟

ڈاکٹر عدنان

دوسری جانب نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ پلیٹ لیٹس میں کمی کی وجوہات جاننے کی اشد ضرورت ہے، میاں صاحب کے دانتوں سے بھی خون آیا جو تشویش ناک بات ہے، بائی پاس آپریشن کے بعد حکومتی تحویل میں 2 بار ہارٹ اٹیک ہوا۔

ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ نوازشریف کو لاحق پلیٹ لیٹس کی کمی اورہارٹ اٹیک کا معاملہ جان لیوا ہے، پلیٹ لیٹس بڑھانے کی دواؤں سے گردے مزید متاثر ہوئے، نوازشریف کے مرض کی تشخص کے لیے باہر جانے کی اجازت دینا ضروری ہے۔

نوازشریف کے ذاتی معالج نے کہا کہ نواز شریف کے سارے جسم پر نیل پڑ گئے ہیں، دماغ کو خون فراہم کرنے والی شریانیں 70 سے 80 فیصد بند ہیں، نوازشریف کےعلاج، ٹیسٹ کے لیے پاکستان میں مزید سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

Comments

- Advertisement -