سندھ دھرتی کی ہزاروں سال قدیم تہذیب، ثقافت اور اس دھرتی پر علم و ادب کے حوالے سے سرمائے کو اکٹھا کرکے، اپنی تحقیق کے بعد محنت اور لگن سے اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت ایک بڑا کارنامہ ہے جسے انجام دینے والوں میں سے ایک معتبر نام ڈاکٹر ہوت چندگر بخشانی کا بھی ہے۔
ان کا ایک بڑا کارنامہ سندھ کے عظیم صوفی اور شاعر شاہ عبدُ اللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت یکجا کرنا ہے۔
ڈاکٹر بخشانی نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت میں جمع کر کے محققانہ چھان بین کے بعد اس طرح مرتّب کیا ہے کہ اب ان کی دی ہوئی ترتیب ہی مستند قرار پائی ہے۔
ڈاکٹر چندگر بخشانی نے شاہ جو رسالو کی تین جلدیں مرتب کرکے شائع کیں لیکن چوتھی جلد ان کی وفات کی وجہ سے اشاعت پذیر نہ ہوسکی، جسے بعد میں مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مکمل کیا ۔
ڈاکٹر چندگر بخشانی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ’’لواری جا لال‘‘ نامی کتاب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دراصل سوانحی کتاب ہے جس میں ڈاکٹر گربخشانی نے لواری سلسلے کی بعض شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر گربخشانی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر گربخشانی کو سندھی تنقید کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی 8 مارچ 1884ء کو سندھ کے تاریخی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ 1900ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا اور 1905ء میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ایم اے کے لیے ولسن کالج بمبئی میں داخل ہوئے۔
1907ء میں ایم اے کرنے کے بعد اسی کالج میں انگریزی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور ایک ہی سال بعد ڈی جے کالج کراچی میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے۔
یہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔
1928ء میں ڈاکٹر گربخشانی لندن یونیورسٹی چلے گئے، جہاں Mysticism in the Early 19th Century Poetry of England (انگلستان کی ابتدائی انیسویں صدی کی شاعری میں تصوف) کے عنوان سے مقالہ لکھا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ بعد ازاں ڈاکٹر گربخشانی کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے بھارت سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔
ڈاکٹر ہوت چند گربخشانی نے ہر چند سندھی ادب میں متنوع اضافے کیے ہیں اور سندھی فکشن میں اپنے کام کی بنیاد پر بھی اپنے ہم عصروں میں انفرادیت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ تحقیق کے آدمی تھے۔
ان کی دیگر تصانیف میں نور جہاں، مقدمۂ لطیفی اور روح رھان شامل ہیں۔ انھوں نے سندھی تنقید نگاری کو اپنے اظہار کے لیے ایک خاص زبان اور اسلوب بخشا اور اپنی تخلیقات سے سندھی زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
وہ 11 فروری 1947ء میں حیدرآباد، سندھ میں وفات پا گئے۔
(محمد عارف سومرو کے مضمون سے)