بدھ, فروری 12, 2025
اشتہار

نیّرہ نور: ایک خوب صورت آواز، ناقابلِ فراموش شخصیت

اشتہار

حیرت انگیز

نیّرہ نور کی آواز میں کئی گیت اور غزلیں آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں‌، بالخصوص ملّی نغمات پاکستان بھر میں‌ مقبول ہیں اور نیّرہ نور کی پہچان ہیں۔ پچھلے سال آج ہی کے روز بلبلِ پاکستان کہلانے والی نیّرہ نور انتقال کر گئی تھیں۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

سنہ 2005 میں حکومت پاکستان نے گلوکارہ نیّرہ نور کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ وہ برسوں پہلے گلوکاری ترک کر کے میڈیا اور تقاریب سے دور ہوچکی تھیں‌، لیکن جب بھی پاکستان میں موسیقی اور گلوکاری کی بات ہوگی اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا تو نیّرہ نور کا نام ضرور لیا جائے گا۔ اس گلوکارہ کے معروف گیتوں اور ملّی نغموں میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، اے جذبۂ دل گر میں‌ چاہوں، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان، شامل ہیں۔

نیّرہ نور نے 70 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ گیتوں، غزلوں کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پسِ پردہ گائیکی تک جاری رہا۔

ان کا بچپن آسام میں گزرا۔ نیّرہ نور کا سنہ پیدائش 1950ء ہے۔ وہ 7 سال کی عمر میں‌ ہجرت کر کے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئی تھیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا تھا کہ گھر کے قریب صبح صبح گھنٹیاں بجتی تھیں، لڑکیاں بھجن گاتی تھیں اور ان کی آواز نیّرہ نور کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی تھی۔ `میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔‘

تقسیمِ ہند کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی۔ یہاں‌ زمانۂ طالبِ علمی میں دوستوں کے درمیان نیّرہ نور اکثر انھیں محظوظ کرنے کے لیے گاتی تھیں۔ ان کی آواز کی شہرت اساتذہ تک پہنچی اور ایک مرتبہ ان کو لاہور میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں اقبال اوپرا کے لیے گانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نور کو گانے پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ بطور گلوکارہ بھی ان کی پہچان بننے لگی۔ لیکن کبھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ باقاعدہ گلوکاری بھی کریں‌ گی۔

پہلی مرتبہ نیّرہ نور کو ریڈیو پر باقاعدہ گانے کا موقع ملا اور ایک غزل ان کی آواز میں‌ سامعین تک پہنچی۔ 1968ء میں‌ ریڈیو سے گونجنے والی اس آواز نے 1971ء میں‌ ٹی وی پر گانے کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ وہ موسیقی کے کئی پروگراموں کا حصّہ بنیں‌۔ فلموں کے لیے بھی انھوں نے بہترین گانے گائے اور نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔

نیّرہ نور نے منتخب کلام گایا اور فیض‌ صاحب کی غزلوں اور ںظموں کو بہت ہی دل کش انداز میں پیش کیا۔ گلوکارہ کی آواز میں فلم فرض اور ممتا کے لیے ایک ملّی نغمہ `اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔

گلوکارہ نیّرہ نور نے گانا باقاعدہ نہیں سیکھا تھا بلکہ ریڈیو پر نشر ہونے والی موسیقی سن کر تربیت حاصل کی تھی۔ گلوکاری ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ لیکن اس میں‌ نکھار لانے کے لیے وہ بڑے گلوکاروں‌ کو سنتی رہیں‌ اور اپنی شہرت اور ریڈیو، ٹی وی پر اپنی پذیرائی دیکھ کر ریاض کرنا بھی شروع کر دیا۔ فنِ گائیکی میں نیّرہ نور اختری فیض آبادی، بیگم اختر سے متأثر تھیں۔

بلبلِ پاکستان کے نام سے مشہور ہونے والی نیّر نور نے بلاشبہ اپنے سریلے گیتوں سے پاکستان بھر میں شہرت اور لوگوں کا پیار سمیٹا اور جہانِ موسیقی میں ان کا خاص مقام ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں