تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

تیوہار: سماج کو مشترک انسانی رشتے میں پرونے میں مددگار

تیوہار کو عربی میں عید، ہندی میں تیوہار (یا تہوار) اور انگریزی میں فیسٹول (Festival) کہتے ہیں۔ تیوہار کا بنیادی مقصد اجتماعی روایات کو زندہ رکھنا اور فرد کو فرد سے جوڑنا ہے۔

انسانی تہذیب کی پوری تاریخ میں تیوہار کا رواج رہا ہے۔ سال کی خاص تاریخوں میں مشترک طور پر قومی تقریب منعقد کرنا، یا مشترک تصور کے تحت کسی یادگار دن کو اجتماعی خوشی منانا، اسی کا نام تیوہار ہے۔

تیوہار عام طور پر سال کی مقرر تاریخوں میں ہوتے ہیں۔ اس روز سب لوگ جمع ہو کر مخصوص انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔ اس طرح تیوہار لوگوں کے اندر اجتماعیت اور یک جہتی پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ وہ سماج کے ایک حصہ کو اس کے دوسرے حصہ سے قریب لے آتا ہے۔ تیوہار ملاقات اور تعلق کی مضبوط اور پائیدار زمین فراہم کر نے کا ایک ذریعہ ہے۔

تبوہار کا ایک حصہ عام طور پر کسی مخصوص سماجی گروہ کے اپنے عقیدہ اور اپنی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ایک حصہ عمومی ہوتا ہے جو صرف ایک سماجی گروہ کی دل چسپی کی چیز نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج اور وسیع تر معنوں میں تمام انسانوں سے تعلق رکھتا ہے۔

مثلاً عید میں دو گانہ نماز کا تعلق مسلم عقیدہ سے ہے۔ وہ مسلمانوں کے مذہب کا حصہ ہے۔ مگر عید میں شیرینی کھانا اور کھلانا ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے۔ یہ عمل انسانی سطح پر میل جول کو بڑھانے والا ہے۔ وہ ایک عالمی چیز ہے نہ کہ کوئی گروہی چیز۔

اسی طرح دیوالی میں لکشمی کی پوجا کرنا ہندو عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہندو مذہب کا جزو ہے لیکن گھر کی صفائی ایک ایسی چیز ہے جس میں ہر آدمی کے لیے دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اس کو ہر آدمی خوشی سے اختیار کر سکتا ہے۔

میں آزادی (1947ء) سے پہلے والے ہندوستان میں پیدا ہوا۔ مجھے اپنے بچپن کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب دیوالی کا نیوہار آنا تو مسلمان ہندوؤں کے یہاں تحفے بھیجتے۔ ہم لوگ بھی اپنے گھروں کی صفائی اسی طرح کیا کرتے تھے جس طرح ہندو لوگ اس تیوہار میں اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب عید کا تیوہار آتا تو ہندو بچے بھی مسلم بچوں کی طرح نئے کپڑے پہنتے۔ ہندو گھروں میں شیرینی کا اہتمام کیا جاتا اور وہ اپنے مسلم پڑوسیوں کی تواضع کر کے خوش ہوتے۔

اس طرح مسلمانوں نے ہندو تیوہاروں میں اپنے لیے دل چسپی کا سامان پا لیا تھا اور ہندو، مسلمانوں کے تیوہاروں میں اپنی دل چسپی کا سامان پا رہے تھے۔ دونوں فرقوں کے تیوہار ایک اعتبار سے ان کے اپنے فرقے کے تیوہار ہوتے تھے اور دوسرے اعتبار سے ان کی حیثیت مشترک تیوہار کی ہوتی تھی۔ اس دوسرے اعتبار سے دونوں گویا ایک دوسرے کے تیوہاروں کو مل جل کر مناتے تھے۔ اس طرح دونوں فرقوں میں رواداری کو فروغ ملتا تھا۔ دونوں بار بار ایک دوسرے سے قریب ہوتے رہتے تھے۔

اس چیز نے اس زمانہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کامل ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا کر رکھی تھی۔ دونوں میں کسی قسم کی اجنبیت حائل نہ تھی۔ دونوں اپنے آپ کو مسلم اور ہندو سمجھتے ہوئے وسیع تر ہندوستانی قوم کا جزو بنے ہوئے تھے۔ دونوں اس عظیم ملک سے یکساں محبت کرتے تھے جس کا نام اب تاریخ میں برصغیر ہند (Indian sub-continent) لکھا جاتا ہے۔

یہی وہ دور ہے جس کی بابت سرسید نے اپنی ایک تقریر (27 جنوری 1883) میں کہا تھا:
"ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے، جس کا بیرونی معاملات اور آپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں۔ ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے۔ ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ مقدس گنگا اور جمنا کا پانی ہم دونوں پیتے ہیں۔ ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے میں، جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔ درحقیقت ہندوستان میں ہم دونوں باعتبار اہلِ وطن ہونے کے ایک قوم ہیں۔ اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی اور بہبودی ممکن ہے۔ اور آپس کے نفاق اور ضد و عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔”

اس طرح کے مشترک ماحول اور یک جہتی کی فضا پیدا کرنے میں تیوہار نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفرت اور باہمی دوری کے قاتل ہیں۔ اگر تیوہاروں کو صحیح جذبہ کے ساتھ اور مشترک انداز میں منایا جائے تو ہمارے سماج سے ہر قسم کے جس کو ہے اور فساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔

تیوہار کو اگر صحیح طریقہ سے منایا جائے تو بلاشبہ وہ رواداری، اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ وہ پورے سماج کو مشترک انسانی رشتہ میں جوڑ کر صالح معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ اور صالح معاشرہ سے پیدا ہونے والے نتیجہ ہی کا دوسرا نام یک جہتی ہے۔

(ہندوستان کے نام ور اسکالر مولانا وحید الدّین خان کی یہ تحریر مخصوص جغرافیے اور معاشرتی حالات میں‌ مصنّف کے نقطۂ نظر اور خیالات پر مبنی ہے)

Comments

- Advertisement -