ٹوکیو : نوجوان بیٹے کی خودکشی سے دلبرداشتہ باپ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ معاشرے میں بد اخلاقی اور دوسروں کی تحقیر سے متعلق قوانین پرعمل درآمد کرایا جائے۔
جاپان کے صوبے شِیگا پریفیکچر کے شہر اوتسُو کے رہائشی ایک شخص کے بیٹے نے اسکول ساتھیوں کی جانب سے غنڈہ گردی کے واقعات کے بعد دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی تھی۔
طالب علم کی موت کے دس سال بعد متوفی کے والد نے تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی اور بدتمیزی کے واقعات کے خاتمے کیلئے سخت تر اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔
شِیگا پریفیکچر کے شہر اوتسُو میں جونیئر ہائی اسکول کے اس طالب علم کی موت کے نتیجے میں جاپان میں غنڈہ گردی یا بدتمیزی کے واقعات کے خلاف قانون نافذ کیا گیا۔
اسکول انتظامیہ اور مقامی تعلیمی بورڈ نے ابتدائی طور پر یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ خودکشی اور تنگ کرنے کی کارروائیوں کے اقدامات کے درمیان کوئی عمومی تعلق ہے۔
تاہم بعدازاں انکشاف ہوا کہ مرنے والا طالب علم اسی گھناؤنی بدتمیزی اور غنڈہ گردی کا نشانہ بنا تھا، پولیس کی تحقیقات میں نیہ بات بھی سامنے آئی کہ متوفی کے ہم جماعتوں نے اسے خودکشی کرنے کی مشق کرنے تک کا بھی کہا تھا۔
غنڈہ گردی کے انسداد کیلئے قانون کے تحت اسکولوں کیلئے اُن تمام واقعات کی تحقیقات کرنا لازم ہے جن میں طلباء کو تنگ کرتے ہوئے کسی بھی طرح کا کوئی زخم یا پھر شدید نقصان پہنچایا گیا ہو۔
اسکولوں پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ غنڈہ گردی کا شکار ہونے والے طلباء کے والدین کو بھی اپنی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کریں۔
لیکن صورتحال کے برعکس مالی سال 2019 میں ملک بھر کے اسکولوں کے ذریعے اطلاع کردہ غنڈہ گردی کے واقعات کی تعداد ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی۔
خود کشی کرنے والے لڑکے کے والد نے اپنے بیٹے کی موت کی دسویں برسی سے پہلے میڈیا سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی زندگیوں کا تحفظ اب بھی نہیں کیا جا رہا ہے حالانکہ قانون کا مقصد ان کی زندگیوں کا تحفظ ہے۔