اسلام آباد: آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ کیسے ہوگا؟ سابق وزیر خزانہ نے آگاہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) ہمارا بجٹ دیکھ کر اسٹاف لیول معاہدہ کرے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بجٹ دستاویزات پہلے آئی ایم ایف کو بھیجے جائیں گے،بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی کاہواتواسٹاف لیول معاہدہ کیاجائیگا۔
مفتاح اسماعیل نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاناہےتو بجٹ بھی ان کی مرضی کاہوناچاہیے،حکومت چاہےتوپیچھےبھی ہٹ سکتی ہےکیونکہ ویسےبھی آئی ایم ایف پروگرام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالات گنجائش نہیں دیتے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق بجٹ دےگی، پاکستان جس بھنورمیں پھنس گیاہےنکلنےکیلئےکچھ وقت درکارہوگا،ایسانہیں ہوسکت اکہ نئی حکومت آتےہی دو تین ماہ میں حالات بہترہوجائیں گے
ادھر حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے ایکسپورٹ سیکٹرز کو گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے۔
وفاقی حکومت نے پانچ ایکسپورٹ سیکٹرز کو گیس پر 80 ارب روپے کی سبسڈی ختم کی، سوئی نادرن نے یکم مئی سے سبسڈائزڈ گیس کی فراہمی ختم کرنے کا نوٹفکیشن جاری کیا۔
حکم نامے کے مطابق یکم مئی سے تمام ایکسپورٹس سیکٹرز پر اوگرا کے منظورکردہ ریٹ نافذ کردیئے گئے، ایکسپورٹس سیکٹرز کو آر ایل این جی پر4ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اضافی ادا کرنا ہونگے۔
دوسری جانب آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں اور خدشہ ہے کہ مالی 2023-24 کا وفاقی بجٹ تاریخ کا تلخ ترین بجٹ ہوسکتا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا امکان ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس آمدن مہنگائی کے تناسب سے بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس ہدف میں1900 سے 2100 ارب روپے اضافے پر غور ہو رہا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کے لیے ٹیکسز کی چھوٹ مزید محدود کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔