شہرہ آفاق سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کو آج ہم سے جدا ہوئے ایک برس بیت گیا، طبیعات کے میدان میں ان کی تھیوریز کو انقلابی حیثیت حاصل ہے۔
سٹیفن ولیم ہاکنگ ۸ جنوری ۱۹۴۲ کو فرینک ہاکنگ اور آئزوبیل ہاکنگ کے ہاں جنم لینے والا پہلا بچہ تھا ۔ اسی تاریخ کو تقریباٌ تین سو سال قبل مشہورِز مانہ ماہرِ طبیعات “گلیلیو گلیلی “کی وفات ہوئی تھی ۔ درحقیقت گلیلیو ہی وہ پہلا سائنسدان تھا جس کی تحقیق اور قوانین سے کائنات کے سر بستہ راز وں کے پردے چاک کرنے کا آغاز ہوا ، جسے انتہاء پر سٹیفن ہاکنگ نے پہنچایا۔
برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ ایک طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔ وہ اپنی نوجوانی میں ہی ایک نہایت نایاب مرض کا شکار ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
اکیس برس کی عمر میں ان پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز و اقارب کے لیے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بے بسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف 2 برس اور جی سکتے تھے ۔
خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان
ان کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکیں گے؟ تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اس بالشت بھر کے انسان نے جس کی کل کائنات ایک ویل چیئر اور اس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین تھی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
اس کی آج تک چالیس ملین کاپیز فروخت ہو چکی ہیں اور اردو سمیت چالیس سے زائد زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ “زمان و مکاں” اور “ٹائم ٹریول “کےموضوع پر لکھی گئی ایک مشکل ترین کتاب ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے،اِس کے باوجود اس کے اگلے ایڈیشنز بھی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہے ہیں۔
عصر حاضر کا یہ مشہور سائنسداں 76 سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا ۔ طبیعات کے میدان میں انقلابی نظریات پیش کرنے والے ہاکنگ کو موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی ہولناکی کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ کئی بار دنیا کو اس سے خبردار کر چکے تھے۔
عالمی خلائی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق زمین سے قریب سیارہ زہرہ (وینس) پر ساڑھے 4 کھرب سال قبل پانی ہوا کرتا تھا۔ مگر اس سیارے کا درجہ حرارت اس قدر گرم ہوگیا کہ اب یہ سیارہ ناقابل رہائش اور گرمی کے تپتے گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ہاکنگ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے موسمیاتی تغیرات کو روکنے کے لیے کام نہ کیا تو بہت جلد ہماری زمین بھی وینس کی طرح ہوجائے گی جس پر زندگی کا وجود ناممکن ہوجائے گا۔
وہ کہتے تھے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کلائمٹ چینج صرف ایک تصور ہے انہیں زہرہ سیارے پر بھیجا جائے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ کس طرح سیارہ زہرہ ایک آتش فشانی گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ’اس سفر کے تمام اخراجات میں اٹھاؤں گا‘۔
یاد رہے کہ زہرہ کی طرف بھیجے جانے والے مختلف مشنز کے مطابق زہرہ کی سطح پر متحرک آتش فشاں ہیں جن سے لاوا ابلتا رہتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انسان اب اس زمین پر صرف اگلے 100 برس تک رہ سکیں گے۔ اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وہ وقت آجائے جسے مختلف مذاہب میں روز قیامت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر انسان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ 100 سال مکمل ہونے سے قبل زمین کو چھوڑ کر کوئی اور سیارہ ڈھونڈ لیں جہاں وہ رہائش اختیار کرسکتے ہوں۔
اسٹیفن ہاکنگ اس کی وجہ کلائمٹ چینج اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف وبائی امراض کا پھیلاؤ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، دنیا کے مختلف حصوں میں کیمیائی حملے، مستقبل قریب میں ہونے والی ایٹمی جنگوں، اور خلا سے آنے والے سیارچوں یا بڑی جسامت کے شہاب ثاقب کا زمین سے ممکنہ ٹکراؤ قرار دیتے تھے۔
ہاکنگ کو امریکی صدر ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیوں سے بھی اختلاف تھا اور ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے یہ اقدام دنیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔