تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

آبِ حیات

یہ کہانی ماضی قدیم کی ہے جب دنیا میں ملک چاہے چھوٹے تھے یا بڑے، سب میں ہی بادشاہت قائم تھی۔ قیطولونیا (کیٹالونیہ) میں بھی ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ تو بادشاہوں کی طرح امیر تھا ہی لیکن اس کی رعایا دیگر ممالک کی طرح غریب تھی اور ہر کس و ناکس امیر ہونے اور محلوں کے خواب دیکھتا تھا۔

اسی ملک کے ایک گاﺅں میں تین بھائی اور ایک بہن رہتے تھے۔ بہن کا نام مایا جب کہ اس کے تینوں بڑے بھائی ہومر، آرتھر اور آگسٹس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہومر سب سے بڑا تھا۔ ان کے ماں باپ ایک خوف ناک سمندری طوفان کی نذر ہو گئے تھے۔ اس طوفان نے اور بھی بہت سے لوگوں کی جان لی تھی۔ یہ چاروں قیطولونیا کے ایک گاﺅں میں ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہتے تھے۔ ان میں بہت پیار تھا اور وہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ وہ جنگلی پھلوں اور خود رو سبزیاں کھا کر گزارا کرتے اور کبھی کبھار خرگوش یا جنگلی مرغ بھی پکڑ لیتے۔

ایک روز ہومر نے، جس نے ابھی تک کوئی باقاعدہ کام نہ کیا تھا اور وہ بس سورج کو چڑھتے اور ڈھلتے ہی دیکھتا رہتا تھا، نے باقی تینوں سے کہا؛ ”ہم کب تک یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ چلو ہم مل کر محنت اور لگن سے کوئی کام کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم امیر ہو جائیں اور اس قابل ہو سکیں کہ اپنے لیے ایک ایسا محل کھڑا کر لیں جیسے کہ امیروں اور بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔“

مایا، آرتھر اور آگسٹس نے خوشی سے کہا؛ ” بالکل ٹھیک ہے بھیا! ہم سب مل کر اور دل لگا کر کام کریں گے!“
انہوں نے جی جان سے کام کیا اور وہ بالآخر ایک روز امیر ہو ہی گئے اور اس قابل بھی کہ اپنے لیے ایک خوب صورت محل تعمیر کر سکیں۔ ایک ایسا محل جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے، اس کے عجائب کو دیکھتے اور کہتے کہ کیا ہی شان دار محل ہے۔ کافی وقت بیت گیا لیکن کوئی بھی اس عجوبے میں کوئی نقص نہ نکال سکا۔ اور پھر ایک روز ایک بڑھیا جو اور بہت سے لوگوں کی طرح محل کے کمروں میں گھوم پھر کر نادر اشیاء دیکھ رہی تھی، اچانک بولی؛ ” یہ بہت ہی شان دار محل ہے لیکن اس میں ایک شے کی کمی ہے!“
” اور یہ کمی کیا ہے۔“ اس سے سوال کیا گیا۔
” ایک عبادت گاہ۔“ اس نے جواب دیا۔
” لیکن اس ملک میں عبادت گاہیں تو بہت سی ہیں، خود اس گاؤں میں پانچ چھے ہیں۔“
” ہاں وہ تو ہیں، لیکن وہ مختلف عقیدوں، دھرم اور مذہبوں کے ماننے والوں نے اپنے اپنے لیے مخصوص کر رکھی ہیں۔ ایسی کوئی نہیں ہے، جس میں ہر کوئی جا سکے۔“
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“
” ایسا یوں ہو سکتا ہے کہ اس عبادت گاہ میں کسی بھی عقیدے، دھرم یا مذہب کے حوالے سے کوئی منبر نہ ہو، کوئی قربان گاہ نہ ہو، نہ کوئی بُت ہو اور نہ ہی قبلہ جیسی کوئی سمت ہو۔ یہ بس وسیع و عریض منقش اور روشن کمروں پر مشتمل ایسی عمارت ہو جو اپنے محور پر ہمیشہ گھومتی رہے اور محل کے گرد اُسی طرح چکر لگائے جیسے زمین بیضوی مدار میں سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ ہر کوئی اس میں جائے اور اپنے من ہی من میں، اپنے عقیدے، دھرم یا مذہب کے مطابق امن و آشتی کے لیے دعا کرے اور باہر آ جائے۔ اور جن کا کوئی عقیدہ، دھرم یا مذہب نہ ہو وہ امن و آشتی کی دعا کے علاوہ حیات کی ابدیت کو بھی سلام پیش کرکے خود میں خوشی محسوس کرتے ہوئے باہر آئیں۔ ”

چاروں بھائی بہن نے استہفامیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا، لیکن بوڑھی عورت کی بات دل کو لگی تھی۔
رات میں جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھے تو انہوں نے بُڑھیا کی اس تجویز پر خوب بحث و مباحثہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی ایک ایسی عبادت گاہ جو سب کے لیے ہو، یقیناً اس محل کی عظمت اور شان و شوکت میں ایک بڑے اضافے کا باعث ثابت ہو گی۔ لیکن ان کے پاس اسے تعمیر کرنے کے لیے کافی پیسے نہ تھے۔

وہ پھر سے محنت کرنے لگے اور دولت جمع کرنے لگے۔ جب کافی دولت جمع ہوگئی تو انہوں نے عبادت گاہ کی عمارت کھڑی کرنی شروع کر دی۔ یہ عمارت اتنی ہی خوب صورت تھی جتنا کہ خود محل تھا۔ بلکہ یہ محل سے بڑی اور سادگی کا مرقع تھی۔ یہ زمین کی طرح گول تھی اور اپنے محور پر ہر وقت گھومتی اور ایک بیضوی مدار میں محل کے گرد چکر لگاتی رہتی۔ دور سے دیکھنے پر ایسے لگتا جیسے دھرتی پر کسی نے ایک بڑا سا متحرک گولہ رکھ دیا ہو۔ رات میں جب اس میں فانوس جلتے تو یہ اور بھی خوب صورت نظارہ پیش کرتی جیسے رنگ برنگی روشنیاں اَزلی گردشوں میں ہوں۔

عبادت گاہ جب مکمل ہو گئی تو اسے دیکھنے کے لیے لوگ پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں گروہ در گروہ آنے لگے۔ وہ محل کو دیکھتے، عبادت گاہ میں جاتے، دعا کرتے اور اس کے وسیع دالانوں اور باغات میں بیٹھ کر ساتھ لایا ہوا کھانا کھاتے، فنِ تعمیر کے ان دو عجوبوں کی تعریف کرتے اور چاروں بہن بھائیوں کی کاوشوں کو بھی سراہتے کہ انہوں نے کمال خوبی سے ملک بلکہ دنیا میں بسنے والے ہر رنگ، ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کر دیا تھا۔

اور پھر ایک روز ایسے ہوا کہ جب وہ چاروں بہن بھائی اپنے مہمانوں کے ساتھ عبادت گاہ کے بڑے کمرے میں بیٹھے تھے تو ایک بوڑھا سیاح جو اسی کمرے کی اندرونی چھت پر بنے پھول بوٹوں اور پرندوں کو دیکھ رہا تھا، اچانک ان کی طرف مڑا اور بولا؛
” زبردست، یہ سب تو بہت ہی زبردست ہے، خوب صورت ہے لیکن ابھی بھی اس میں کچھ کمی ہے۔“
”اے بزرگ ، ہمیں بتاﺅ کہ وہ کیا ہے؟“ ہومر نے پوچھا۔
” عبادت گاہ میں ان چیزوں کی کمی ہے جو دنیا کے سب لوگوں کے لیے مقدس اور الوہی ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
”اور وہ کیا ہیں ؟“ مایا نے پوچھا۔
” آبِ حیات، حیات کا وہ درخت جس کی شاخیں زرّیں ہیں اور ان پر لافانی خوب صورتی و خوش بُو رکھنے والے پھول لگتے ہیں اور زندگی کی لافانیت کا مظہر ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے پرندے جو سب انسانوں کی بولیوں پر عبور رکھتے ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
” اور یہ ہمیں کہاں ملیں گے؟“ آرتھر نے پوچھا۔
”تمہیں اس کے لیے اُس پہاڑ کو پار اتر کر نیچے تنگ وادی میں جانا ہو گا۔ وہیں ایک کھوہ میں تمہیں اپنی مراد ملے گی۔“ بوڑھے نے دور نظر آنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا جو دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر بوڑھے نے گردن جھکائی، ان کو الوداع کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ چاروں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ ہومر ان تینوں الوہی اشیاء کو لینے جائے گا۔

” لیکن بھائی اگر کوئی مصیبت تمہاری راہ میں آڑے آئی یا بدی تمہاری راہ میں حائل ہوئی تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا ؟ “ مایا نے کہا۔
” ہاں ، تم ٹھیک کہتی ہو۔ اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہ تھا۔“
وہ چاروں اس راہ کی طرف بڑھے جس پر بوڑھا گیا تھا۔ مایا بوڑھے سے مخاطب ہوئی؛
” ہمارا سب سے بڑا بھائی آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور پرندوں کے حصول کے لیے جانا چاہتا ہے، جن کے بارے میں آپ نے کہا کہ ان کی عبادت گاہ میں کمی ہے۔ ہم یہ کیسے جانیں گے کہ بدی اس کے آڑے آئی اور وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں ہو گیا؟“
بوڑھے نے مایا کو مسکرا کر دیکھا اور اپنی جیب سے سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا سا پتھر نکالا اور بولا؛
” اسے انگوٹھی میں جڑوا لو اور اپنے بائیں ہاتھ کی بڑی انگلی میں پہن لو۔ یہ ایک دہکتے شہاب ثاقب کا ٹکڑا ہے جو ہزاروں سال پہلے شط العرب دریا میں گرا اور ٹھنڈا ہو کر سیاہ ہو گیا تھا۔ جب تک یہ سیاہ رہے تو سمجھو سب ٹھیک ہے لیکن جب یہ لال ہو کر دہکنے لگے تو جان لینا تمہارا بھائی کسی مصیبت کا شکار ہو گیا ہے۔“

انہوں نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹ گئے۔ ہومر نے تیاری کی اور پہاڑ کی جانب چل دیا۔ وہ سات دن کی مسافت طے کر کے پہاڑ کے دامن میں پہنچا۔ وہاں ایک کٹیا میں شمع روشن تھی۔ وہ اس میں داخل ہوا تو سامنے ایک باریش بزرگ بیٹھا تھا۔
” اے بزرگ ، کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ پہاڑ پار تنگ وادی تک پہنچنے میں مجھے اور کتنا وقت لگے گا؟“
” لیکن تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“ بزرگ نے پوچھا۔
” میں آبِ حیات، لافانی پھولوں اور زریں شاخوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
” ان تینوں کو پانے کے لیے بہت سے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے یہاں آئے ، میرے پاس رُکے اور آگے گئے۔ لیکن میں نے انہیں واپس لوٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور ایسا ہے کہ تم بھی شاید واپس نہ لوٹو۔ ہاں البتہ اگر تم میرے کہے پر پوری طرح عمل کرو گے تو مراد پا لو گے۔ جھونپڑی کے پیچھے والا راستہ اختیار کرو اور پہاڑ پر چڑھو۔ جب تم اس کی چوٹی کے پاس پہنچو گے تو اسے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے ڈھکا پاﺅ گے۔ وہاں رُکنا نہیں اور نہ ہی پتھروں کی طرف دیکھنا، بس چلتے جانا۔ اور پھر ہنسنے اور لعن طعن کرتی آوازیں تمہارا پیچھا کریں گی۔ یہ پتھروں سے اٹھ رہی ہوں گی۔ ان کو نظر انداز کرنا اور مُڑ کر مت دیکھنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی پتھر بن جاﺅ گے۔ نظر سیدھ میں رکھنا اور تب تک سامنے کی طرف تکتے رہنا جب تک تم چوٹی کے پار نہ اتر جاﺅ اور یہاں تک کہ تمہیں تنگ وادی نظر نہ آنے لگے۔“ باریش بزرگ نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی اورچولہے پر دھرے برتنوں سے دال اور چاول نکال کر اسے کھانے کے لیے دیے۔ ہومر نے رات کٹیا میں ہی بسر کی۔

اگلی صبح وہ بزرگ کے بتائے راستے پر چلتا پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ وہ جب پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچا تو ویسے ہی پتھر اس کے قدموں تلے آنے لگے جیسا کہ بزرگ نے بتائے تھے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا رہا اسے اپنے پیچھے سے تمسخر آمیز ہنسی اور لعن طعن کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ ان پر دھیان دیے بغیر آگے بڑھتا رہا۔ پہاڑ کی چوٹی بہت قریب تھی اور آوازیں تھیں کہ اونچی سے اونچی ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی اس نے چوٹی پھلانگی، آوازوں کا شور اپنی انتہا پر پہنچ چکا تھا۔ صبر کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور اس نے ایک پتھر اٹھایا اور مُڑ کر اپنے پیچھے چھائی دھند جو پتھروں سے ہی اٹھ رہی تھی، میں پھینکا۔ اسی لمحے اس کے بازو اکڑنے لگے اور وہ خود بھی پتھر میں ڈھل گیا۔

تبھی، محل میں بیٹھی مایا کی نظر اپنی سیاہ پتھر والی انگوٹھی پر پڑی، پتھر آگ کی طرح دہک رہا تھا اور اس کی تپش اس کی انگلی کو جھلسا رہی تھی۔ وہ دوڑتے ہوئے اپنے بھائیوں کے پاس گئی اور انہیں انگوٹھی دکھائی اور چلائی:
”ہمارا بڑا بھائی کسی خطرے میں گِھر گیا ہے۔“ پتھر کی دہک کم ہو رہی تھی۔
آرتھر بولا ” میں جاتا ہوں اور اسے تلاش کرتا ہوں۔“
وہ بھی اسی سمت میں چلتا گیا جس طرف اس کا بڑا بھائی گیا تھا۔ وہ بھی سات دن کی مسافت طے کرکے پہاڑ کے دامن میں پہنچا۔ کٹیا والے باریش بزرگ سے ملا اور اس سے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا۔
” مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ وہ تمہارا بھائی تھا یا نہیں لیکن کچھ روز قبل ایک نوجوان یہاں آیا تھا اور آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے پہاڑ کی طرف گیا تھا۔ لیکن وہ واپس نہیں لوٹا۔ لگتا ہے پہاڑ پر چھائے بدی کے جادو نے اپنا کام کر دکھایا۔“
” جی وہ میرا ہی بھائی ہے۔ مجھے بتائیں کہ میں اپنے بھائی کو اس بد سحر سے کیسے بچاﺅں اور کیسے تینوں مقدس اشیاء کو حاصل کروں؟“

باریش بزرگ نے اسے بھی وہی صلاح دی جو اس نے اُس کے بڑے بھائی کو دی تھی لیکن وہ اسے یہ نہ بتا سکا کہ وہ اپنے بھائی کو بد سحر سے کیسے نکالے۔ آرتھر نے بھی ابلے چاول دال کے ساتھ کھائے اور رات اسی کٹیا میں بسر کی۔

اگلی صبح وہ بھی باریش بزرگ کے بتائے راستے پر آگے بڑھ گیا۔ وہ جب پہاڑ پر پتھروں والے مقام پر پہنچا تو اسے بھی لعن طعن اور تمسخر بھری آوازوں کا سامنا کرنا پڑا جو بلند سے بلند تر ہوئے اس کے کان پھاڑ رہی تھیں۔ اسے ان آوازوں میں اپنے بڑے بھائی کی پکار بھی سنائی دی۔ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔اس کا ایسا کرنا تھا کہ وہ بھی پتھر میں بدل گیا۔

اِدھر محل میں مایا جو اپنے بھائیوں کے لوٹنے کے دن گن رہی تھی، کو اسی لمحے انگلی میں تپش محسوس ہوئی، اس گھبرا کر اسے دیکھا، انگوٹھی میں جڑا پتھر ایک بار پھر دہک رہا تھا۔ وہ خوف سے چلائی اور آگسٹس کے پاس گئی اور اسے دہکتا پتھر دکھایا۔
وہ فوراً بول اٹھا: ” مایا تم فکر مت کرو ، میں ان کی مدد کو جاتا ہوں اور ساتھ میں آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرکے لاتا ہوں۔“ آگسٹس بھی پہاڑ کی سمت چل دیا اور سات روز کی مسافت طے کرتا پہاڑ کے دامن میں اسی کٹیا کے پاس پہنچا جہاں سے گزر کر اس کے دونوں بھائی آگے گئے تھے۔ اس نے باریش بزرگ سے پوچھا ؛
” کیا آپ نے پچھلے دنوں میں دو جوان پہاڑ پار جاتے دیکھے تھے؟“
”ہاں وہ یہاں میرے پاس رات بھر رکے بھی تھے اور اگلی صبح آگے روانہ ہوئے تھے۔ لیکن تم سے مطلب؟“
” وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ میں انہی کی تلاش میں، انہیں بچانے اور آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے آیا ہوں۔“

باریش بزرگ نے اسے بھی دال چاول کھانے کو دیے۔ رات اپنے پاس ٹھہرایا اور اگلی صبح اسے بھی رخصت کرتے ہوئے وہی نصیحت کی ، جو وہ پہلے اس کے بھائیوں کر چکا تھا۔ آگسٹس نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور اس کی بتائی راہ اختیار کی۔ وہ بھی جب پہاڑی راستے پر اوپر چڑھتا ہوا چوٹی کے پاس پہنچا اور ہانپتے ہوئے چال دھیمی کی تو پیچھے سے آوازوں کا شور اٹھا، اس نے پروا نہ کی اور سانس برابر ہونے پر پھر تیزی سے چلنے لگا۔ اب وہ پتھر پھلانگ رہا تھا اور آوازیں تھیں کہ بلند سے بلند تر ہو رہی تھیں۔ ان میں اس کے دونوں بھائیوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ یہ آہ و بکا کر رہی تھیں۔ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے مڑ کر بھائیوں کو دیکھنا چاہا۔ پیچھے کوئی نہ تھا بس پتھروں سے دھواں اٹھ کر دھند میں بدل رہا تھا۔ اس کے اپنے بدن سے دھواں اٹھا اور وہ لڑھک کر پتھر ہو گیا۔
اِدھر محل میں مایا، جو کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹ رہی تھی ، نے انگوٹھی میں جڑے پتھر کو جب دہکتے ہوئے دیکھا تو یک دم بول اٹھی؛ ” اب میری باری ہے۔ مجھے اپنے بھائیوں کی خاطر اور آبِ حیات ، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے یہاں سے نکلنا ہو گا۔“ وہ پہاڑ کی سمت چلی اور چلتی ہی گئی۔ بالآخر وہ بھی کٹیا والے باریش بزرگ کے پاس پہنچی اور اس سے اپنے بھائیوں کے بارے میں پوچھا۔

بزرگ نے لڑکی کو دال چاول کھانے کو دیے اور اسے یہ بھی بتایا کہ دنیا میں جنت نظیر ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں دال چاول کو اس کے باسی ‘وری بتہ ‘ کہتے ہیں اور یہ کہ وہ وہیں پیدا ہوا تھا۔ لڑکی جب کھا رہی تھی تو بزرگ کی نظر اس کے بائیں ہاتھ پر پڑی۔ اس نے پوچھا؛ ” بیٹی انگوٹھی میں جڑا یہ پتھر تم نے کہاں سے لیا۔“
لڑکی نے بزرگ کو اپنی غربت سے لے کر امیری تک ، امیری سے لے کر محل تک ، بُڑھیا سے لے کر عبادت گاہ تک اور عبادت گاہ سے لے کر بوڑھے تک کی ساری کہانی سنا ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ اسے پتھر اسی بوڑھے نے دیا تھا اور اس نے اسی کے کہنے پر اسے انگوٹھی میں جڑوایا تھا۔ بزرگ اس کی ساری داستان سن کر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ خاصی معنٰی خیز تھی۔ مایا نے رات کٹیا میں ہی گزاری۔ پو پھٹنے پر بزرگ نے اسے بھی وہی کچھ بتایا جو وہ اس کے بھائیوں کو بتایا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جب پہاڑ پر اسے اپنے پیچھے سے آوازیں ، خاص طور پر بھائیوں کی آہ و بکا سنائی دے تو وہ اپنی نظریں اپنی انگوٹھی میں لگے پتھر پر مرکوز کر دے اور آگے بڑھتی جائے۔ اور یہ کہ یہ پتھر اس کے دل کو تقویت دے گا اور اسے اپنی راہ یوں صاف نظر آئے گی جیسے شط العرب دریا کا شفاف پانی ہو۔

مایا شط العرب دریا کا ذکر سن کر چونکی اور اسے وہ بوڑھا یاد آیا جس نے اسے یہ پتھر دیا تھا اور اسے یہ بتایا تھا یہ کیا تھا اور یہ کیونکر ٹھنڈا ہو کر سیاہ ہوا تھا۔ وہ باریش بزرگ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اس پتھر کے بارے میں اور کیا جانتے تھے لیکن اپنے بھائیوں کو بچانے اور اپنی منزل تک پہنچنے کی جلدی آڑے آئی اور وہ بزرگ کا شکریہ ادا کر کے کٹیا کی پشت پر موجود پہاڑی راستے کی طرف چل دی۔

اور پھر جیسے ہی وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچی جہاں سے آوازوں نے اس کا پیچھا کرنا تھا تو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس کا بایاں ہاتھ جب حرکت کرتا تو اسے لگتا جیسے اس طرف کے پتھر بھی حرکت کر رہے ہوں۔ جب یہ احساس قوی ہوا تو اس نے چال دھیمی کی اور اپنا بایاں ہاتھ گھما کر دائیں طرف کیا اور اسے ہلایا۔ دائیں طرف کے پتھروں میں بھی حرکت پیدا ہونے لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان پتھروں میں زندگی قید تھی۔

وہ پھر سے تیز تیز چلنے لگی اور اس کے پیچھے پیچھے آوازیں آنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ یہ جوں جوں بلند ہوئیں تو اسے ان میں اپنے بھائیوں کی آہ و بکا بھی سنائی دینے لگی۔ اس نے باریش بزرگ کی ہدایت کے مطابق اپنی نظریں انگوٹھی کے پتھر پر مرکوز کر دیں۔ ہر لمحہ اسے پہاڑ کی چوٹی کے قریب لے جاتا گیا اور جیسے ہی اس نے چوٹی پار کی ، شور و غوغے نے اس کو بہرہ کر دیا لیکن اس نے اپنے قدم نہ روکے اور نیچے اترتی چلی گئی۔
اب اس کے سامنے تنگ وادی تھی اور پھر بالآخر وہ اس کھوہ تک جا پہنچی جہاں نے ایک جھرنا پھوٹ رہا تھا اور اس کے قدموں میں تالاب کے کنارے زریں شاخوں والا تن آور درخت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں پھولوں سے لدی تھیں اور کچھ ڈالیوں پر پرندوں کے کئی جوڑے بیٹھے ایسی زبان بول رہے تھے جو اس کی اپنی تھی۔ اس نے اپنا مشکیزہ جھرنے سے نکلنے والے پانی سے بھرا، درخت کی کچھ ہری شاخیں کاٹیں اور مشکیزے میں ہی ڈال لیں۔ اب مسئلہ پرندوں کے جوڑے کا تھا، اس کے پاس پنجرہ نہ تھا۔ وہ درخت کے نیچے بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کہ ایسا کیا کرے کہ پرندوں ایک جوڑا بھی ساتھ لے جا سکے۔ تبھی اس کے کانوں میں پرندوں کی آواز پڑی، ایک بولا؛
” کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں جس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسی عبادت گاہ بنائی ہے جس کے دروازے ہر عقیدے ، دھرم اور مذہب کے لوگوں پر کھلے ہیں اور جو اپنے محور پر اور مدار میں یوں گھومتی ہے جیسے زمین۔“

”لگتا ہے یہ وہی ہے کیونکہ اس نے آب ِ حیات سے اپنا مشکیزہ بھرا ہے اور اس نے زریں شاخوں والے اس درخت کی کچھ شاخیں بھی توڑی ہیں اور اب یہ بیٹھی سوچ رہی ہے کہ وہ ہم میں سے ایک جوڑا کیسے پکڑے اور کیونکر ساتھ لے جائے۔“
دوسرا بولا۔” چلو ، اس کے پاس جا کر پوچھتے ہیں۔“ ، تیسرا بولا۔
اور پھر بہت سے پرندے درخت کی شاخوں سے نیچے اترے اور مایا کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
مایا ، چونکہ ، ان کی باتیں سن چکی تھی اس لیے وہ بولی:
” ہاں ہم بہن بھائیوں نے ہی ایسی عباد ت گاہ بنائی ہے۔ اور یہ کہ ایک بزرگ کے مطابق اس میں آب ِ حیات، زریں شاخوں اور لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندوں کی کمی ہے۔ پہلے میرے بھائی یہ کمی پوری کرنے نکلے تھے لیکن بد سحر کا شکار ہو گئے۔ اب میں اس بد سحر سے بچ کر یہاں تک پہنچی ہوں۔“

یہ سن کر پرندے ایک ایسی زبان میں باتیں کرنے لگے جو مایا کے لیے اجنبی تھی۔ کچھ دیر بعد انہی پرندوں میں سے ایک نوجوان جوڑا آگے بڑھا اور اس کے بالکل قریب آ کر بولا: ” ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ ہم دونوں عبادت گاہ کے کسی ایک جھروکے میں بسیرا کریں گے، اپنی نسل بڑھائیں گے اور پھر مل کر اس عبادت گاہ کے ہر دروازے، ہر منڈیر پر بیٹھ کر اس میں آنے والوں کے لیے ان کی ہی زبان میں چہچہا کر ان کا استقبال کریں گے۔”
” چلو اٹھو، اس سے پہلے کہ سورج ڈھلنے لگے، تمہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔“ پرندوں میں سے ایک جو قدرے بوڑھا لگتا تھا، بولا۔ مایا یہ سن کر کھل اٹھی۔ اس نے مشکیزہ کندھے پر ڈالا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ پرندوں کا جوان جوڑا اس کے سر پر منڈلاتا ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔

واپسی کا راستہ وہی تھا جس پر چل کر وہ آئی تھی۔ وہ اپنے پچھلے سفر کی وجہ سے تھکی ہوئی تھی اس لیے جب وہ دوبارہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچی تو ہانپنے لگی۔ اس نے مشکیزہ کندھے سے اتار کر نیچے رکھا تو اس میں سے آبِ حیات کے کچھ قطرے باہر گرے۔ جہاں جہاں یہ قطرے گرے، وہاں وہاں کے پتھروں میں جان پڑ گئی اور وہ جوان لڑکوں اور دوشیزاؤں میں بدل گئے۔ مایا کو پتھروں میں قید زندگی کو چھڑانے کا طریقہ سمجھ آ گیا تھا۔ اس نے مشکیزے میں سے چلو میں پانی بھرا اور قطرہ قطرہ کر کے پتھروں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ پرندوں کے جوڑے نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی نیچے اترے اور چونچوں میں پانی بھر کر دور والے پتھروں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں سارے پتھر زندہ ہو کر جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بدل گئے، ان میں مایا کے تینوں بھائی بھی تھے۔
اب جوانوں کا ایک جم غفیر تھا جو اس لڑکی کے ساتھ محل کی طرف رواں دواں تھا۔ پہاڑ کے دامن میں باریش بزرگ کی کٹیا بھی آئی۔ مایا اور اس کے بھائی اندر گئے لیکن وہ خالی تھی ، چولہا بھی سرد تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے یہ جھونپڑی مدتوں سے ویران پڑی ہو۔

محل پہنچ کر مایا نے دیر نہ لگائی۔ وہ فوراً ہی عبادت گاہ کے سامنے والے مرکزی باغ میں گئی۔ زریں شاخوں اور لافانی پھولوں والے درخت کی ٹہنیوں کو مناسب فاصلوں پر لگایا اور انہیں آبِ حیات سے سینچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹہنیاں تناور درختوں میں بدل گئیں اور ان کی زریں شاخیں لافانی خوب صورتی و خوشبو والے پھولوں سے لَد گئیں۔ پرندوں کے جوڑے نے بھی عبادت گاہ کے مرکزی دروازے کے پاس ایک بڑے جھروکے میں اپنا گھونسلہ بنایا اور چونچیں لڑانے لگے۔ مایا نے مشکیزے میں بچا پانی عبادت گاہ سے ملحقہ حوض جس کے نیچے ایک کنواں تھا، میں انڈیل دیا۔

جلد ہی مایا، محل، عبادت گاہ، آب ِحیات والے حوض ، زریں شاخوں اور لافانی خوب صورتی و خوش بو والے پھولوں سے لدے درختوں اور بولنے والے پرندوں، جو ایک سے کئی جوڑوں تک نسل بڑھا چکے تھے، کی شہرت مملکت قیطولونیا کی سرحدوں سے باہر جا نکلی اور بدیس سے آنے والے سیاحوں کا تانتا بندھ گیا۔ چاروں بہن بھائی شاہی خاندان سے تو نہیں تھے لیکن لوگ انہیں شہزادے اور شہزادی ہی گردانتے اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔

پھر ایک روز ایسا ہوا کہ ان عجائب کو دیکھنے کے لیے آنے والوں میں اِک جوان بھی شامل تھا۔ وہ ملحقہ مملکتِ یونان کا ولی عہد تھا۔ اس نے ان بہن بھائیوں کی پوری داستان سن رکھی تھی کہ وہ غربت سے کیسے نکلے اور موجودہ مقام تک کیسے پہنچے، مایا نے کس طرح حوصلہ مندی ، جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بھائیوں کو بچایا اور آب ِحیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کیے تھے۔ اس کے دل میں تمنا جاگی کہ وہ ان سے ملے۔

مایا اور اس کے بھائیوں سے ملاقات کے دوران ولی عہد اپنا دل مایا کو دے بیٹھا۔ واپس جا کر اس نے اپنے والدین کو بتایا اور مایا سے شادی کرنے کی اجازت مانگی اس پر اس کا باپ ، یونان کا بادشاہ بولا؛ ” کیا مایا قیطولونیا کے شاہی خاندان سے ہے؟“
” نہیں ،لیکن اس کا گھرانہ شاہی خاندان سے کم بھی نہیں ہے۔“ ولی عہد نے جواب دیا۔
”کیا یہ بہن بھائی ہماری طرح دیوتاﺅں اور دیویوں کو مانتے ہیں؟ کیا ان کا خدا بھی زیوس ہے یا وہ رومن لوگوں کی طرح جیوپیٹر کو اپنا خدا مانتے ہیں؟“ ولی عہد کو اس بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ ہرکارے دوڑائے گئے کہ وہ یہ خبر لا کر دیں کہ بہن بھائیوں کاعقیدہ کیا تھا۔ خبر یہ آئی کہ وہ اصلاً پرومیتھیس کے پیرو کار تھے لیکن جب سے انہوں نے ایک بوڑھی عورت کے کہنے پر کُل جہاں کے لوگوں کے لیے عبادت گاہ بنائی تھی، تب سے وہ فقط پرومیتھیس کے پیروکار ہی نہیں رہے تھے بلکہ اب وہ باقی دنیا میں رائج الوقت تمام عقائد، دھرم اور مذاہب کو برابر جاننے لگے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ سخت نالاں ہوا۔ اس نے ولی عہد سے کہا؛” پرومیتھیس تو وہ تھا جس نے ان کے خدا زیوس سے آگ چرائی اور غاروں میں رہنے والے انسانوں کو دی اور اس کی پاداش میں زیوس نے اسے کاکیشیا کے پہاڑ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رنجیروں میں جکڑ کر اس پر ایک عقاب چھوڑ دیا جو ہر روز اس کا کلیجہ کھاتا ہے اور ہمیشہ کھاتا رہے گا۔ تم پرومیتھیس کے پیروکار خاندان میں کیسے شادی کر سکتے ہو؟“ ولی عہد نے باپ کو سمجھانے اور منانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔

اور پھر ایک رات ولی عہد نے باپ کے نام رقعہ چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ اسے ولی عہدی نہیں چاہیے، اسے مایا چاہیے تھی جسے حاصل کرنے کے لیے وہ پرومیتھیس کا پیروکار بننے کے لیے بھی تیار تھا۔ وہ چپکے سے یونان چھوڑ کر قیطولونیا چلا آیا اور سیدھا بہن بھائیوں کے محل پہنچا۔ اس نے ہومر سے مایا کا ہاتھ مانگا۔ ہومر نے مایا سے پوچھا۔ مایا، جسے خود بھی یونان کا شہزادہ پسند آ گیا تھا، نے ہاں کر دی لیکن یہ شرط لگائی کہ ان کی شادی کی رسم اسی عبادت گاہ میں ادا ہو گی جو انہوں نے بنائی تھی جس میں جا کر دعا کرنے اور دوسروں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے لیے کُل عالم کا ہر بندہ بشر آزاد تھا۔

شہزادے نے مایا کی شرط مان لی۔ زریں شاخوں والے درخت سے لافانی خوب صورتی اور خوش بو رکھنے والے پھولوں سے دو بڑی مالائیں بنائی گئیں۔ شہزادے اور مایا نے عبادت گاہ کے مرکزی بڑے کمرے میں ہوا میں اڑتے عالم گیر خوشی، محبت اور امن و آشتی کے نغمے بکھیرتے ہوئے پرندوں کے سائے تلے ایک دوسرے کو یہ مالائیں پہنائیں۔ اور پھر جب وہ دونوں تالیوں کی گونج میں تقریب میں شامل لوگوں کی طرف مڑے تاکہ سر جھکا کر ان کا شکریہ ادا کر سکیں تو مایا نے دیکھا:

ایک کونے میں بوڑھی عورت، بوڑھا اور باریش بزرگ کھڑے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

(قیطولینی لوک ادب سے ماخوذ)

Comments

- Advertisement -