تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

گدھا اور تمغۂ خدمت

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوش حال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

وقت گزرتا گیا…. پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نامعلوم کیوں، پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے۔

جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جارہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سمجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی ڈھونڈورچی روانہ کروائے اور منادی سے شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا۔

‘‘میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغۂ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فوراً شاہی محل میں حاضر ہو جائے۔ مابدولت اسے تمغۂ خدمت سے نوازیں گے۔’’

منادی سنتے ہی ملک کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر میں تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغۂ خدمت درجۂ اوّل خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجۂ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ وغیرہ۔ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔

ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کر دیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخ دلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔

ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے دکھائی دینے لگے۔
ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی۔ اس کے باوجود گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا، تو بولی….

‘‘بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرفِ ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔’’

دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ بولا….

گائے نے عرض کی ‘‘بادشاہ سلامت میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں۔’’

‘‘تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی….؟ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سر انجام دیتے ہیں جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں….؟’’ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا۔

گائے نے جواب دیا ‘‘بادشاہ سلامت، اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حق دار نہیں تو پھر بھلا اور کون ہوسکتا ہے! میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے….؟’’

گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ گائے کو فوراً تمغہ خدمت درجہ دوم عطا کر دیا جائے۔

گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا۔

‘‘گائے جی سلام!’’

‘‘سلام خچر بھیا۔’’

‘‘باجی آج بڑی خوش نظر آرہی ہو، کیا وجہ ہے….؟ کہاں سے آرہی ہو….؟ اور ہاں، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے….؟’’

گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آیا، فوراً سرپٹ بھاگا اور جاکر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا۔

دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر اپنی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دو دربانوں پر دولتیاں جھاڑیں، ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہماں اندر آنا چاہتا ہے۔

بادشاہ نے حکم دیا ‘‘خچر کو پیش کیا جائے، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی میں شمار ہوتا ہے۔’’

خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔

بادشاہ نے پوچھا ‘‘اے خچر، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغےکا حق دار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو….؟’’

خچر نے عرض کی ‘‘مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی نہیں۔ بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں، گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اُٹھا کر کون دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے۔ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے….؟ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بے شمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے۔’’

بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو درجہ اوّل کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔

خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔

گدھے نے خچر سے کہا ‘‘سلام پیارے بھتیجے۔’’

‘‘سلام چچا جان’’ خچر نے جواب دیا۔ ‘‘کہو! اتنے خوش خوش کہاں سے آرہے ہو….؟’’ خچر نے سارا واقعہ سنایا، تو گدھا رینکا۔

‘‘ذرا ٹھہرو، میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔’’ یہ کہا اور سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کرکے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آچکا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا۔

‘‘گدھے کہیں کے تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل میں آپہنچے ہو اور پھر طرّہ یہ کہ مابدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو۔ میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔ خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سرانجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں، ڈھینچوں کرکےرعایا کے آرام میں خلل اندازی کے اور کیا کام کیا ہے….؟

تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں….؟’’ گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا۔

‘‘بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو گدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنہیں لوگ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی محفوظ چلی آرہی ہے۔’’

گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا۔ ‘‘واقعی گدھا حق بجانب ہے۔’’

بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا۔ ‘‘اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے، البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ ہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرو۔’’

(ترکی کے مشہور ادیب، شاعر اور ممتاز مزاح نگار عزیز نیسن کی کہانی کا یہ ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ کی کتاب ‘‘تماشائے اہلِ کرم ’’میں شامل ہے)

Comments

- Advertisement -