تازہ ترین

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

سیکیورٹی فورسز کا خیبر پختونخوا میں آپریشن، 11 دہشتگرد ہلاک

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں...

ایرانی صدر کی وزیراعظم ہاؤس آمد، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی وزیراعظم ہاؤس پہنچے...

روسی فوج کا مقابلہ کرنے والی دلیر خاتون کا تذکرہ

سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے میں ترکی کے ایک علاقے ارضروم کی نینہ خاتون کا نام لوک ادب کا حصّہ بنا جو روسی افواج کی شورش کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں اتری تھیں۔

العزيزيہ کے نام سے معروف شہر کے ایک اہم قلعہ کے قریب واقع ارضروم علاقے میں‌ ہر جوان روسی افواج کے خلاف اور سلطنتِ عثمانیہ سے وفاداری نبھانے کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار تھا۔ یہ 7 نومبر 1877ء کی بات ہے جب روسی فوج نے العزیزیہ قلعے پر تعینات فوجیوں پر حملہ کرکے انھیں قتل کردیا اور اس اہم مقام پر قبضہ کر لیا۔ اسی حملے میں نینہ خاتون کا بھائی بھی زخمی ہوا تھا اور بعد میں‌ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا تھا۔ اس کا نام حسن تھا۔

1877 سے 1878 تک جاری رہنے والی اس جنگ میں قلعے پر روسی فوج کے قبضے کے بعد جب حسن کی لاش اس کی بہن کے سامنے آئی تو اس نے اس کے چہرے کا بوسہ لیا اور سب کے سامنے روسیوں سے اس کا بدلہ لینے کی قسم اٹھائی۔

اس وقت شہری بھی روسیوں کے خلاف ایک مقام پر اکٹھے ہورہے تھے اور نینہ خاتون نے بھی اپنی تین ماہ کی بیٹی اور نوعمر لڑکے کو پیار کیا، اور زندگی کی آخری سانس تک روسیوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیا۔

کہتے ہیں کہ اس کے پاس بھائی کی بندوق اور ایک چھوٹی کلہاڑی تھی۔ اس علاقے میں روسیوں کو عثمانی فوج کا نہیں بلکہ ان عام شہریوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا جو اپنے دین کی سلامتی اور سلطنت کے دفاع کے لیے کلہاڑیوں اور ایسے ہی دوسرے اوزاروں سے مسلح تھے۔ یہ شہری اپنے سادہ اسلحہ کے ساتھ روسی فوج کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کررہے تھے جن میں نینہ خاتون بھی شامل تھی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ شروع ہوئی تو سیکڑوں شہریوں کی زندگیوں کو روسیوں کی گولیوں نے نگل لیا، لیکن ان کی جانب سے مزاحمت جاری رہی۔ یہ شہری آگے بڑھتے ہوئے قلعے کے فولادی دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئے جس پر روسی فوجیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ان کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہ تھا بلکہ اکثریت ڈنڈوں، کلہاڑیوں اور چھریوں سے روسیوں پر ٹوٹی پڑی تھی۔ اس علاقے میں جاری رہنے والی اس جنگ میں لگ بھگ 2 ہزار روسی فوجی مارے گئے اور نینہ خاتون بھی زخمی ہونے کے بعد ایک مقام پر بے ہوشی کی حالت میں‌ پائی گئی۔ اس کے ہاتھ میں غلیل تھی جسے اس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔

اسے وہاں کے شہریوں نے بڑی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا اور ان کے مطابق وہ جس بے جگری سے لڑی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس خاتون کی بہادری کا اعتراف بعض روسی فوجیوں نے بھی کیا۔

نینہ خاتون کو ترکی میں "امُّ الجیش الثالث” اور "ماؤں کی ماں” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 1955 میں نینہ خاتون کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ 1857ء میں پیدا ہوئی تھی۔ وفات کے وقت اس کی عمر 98 سال تھی۔ نینہ خاتون کے مجسمے آج بھی العزیزیہ میں اہم مقامات پر نصب ہیں۔

Comments

- Advertisement -