تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

ہماری جینز کا نیلا رنگ کہاں سے آیا؟

رنگ مختلف خاصیتوں کے حامل ہوتے ہیں، کچھ رنگ خوشی، خوشحالی، محبت اور سکون کا استعارہ ہوتے ہیں تو کچھ غم و الم، مایوسی اور ناامیدی کی علامت ہوتے ہیں۔

نیلا بھی ایسا ہی رنگ ہے جو بھروسے، وفاداری اور ذہانت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس رنگ کی کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو ہم آج سے قبل نہیں جانتے تھے؟

ہماری نیلے رنگ کی جینز، اور نیلے رنگ کے مختلف ملبوسات آج کے دور میں مختلف کیمیکلز سے رنگے جاتے ہیں۔ آئیے آج ہم آپ کو اس رنگ کے اصل خطے اور اس کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں۔

جاپان کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی شہر ٹوکو شیما نیلا رنگ پیدا کرنے والے پودوں انڈیگوفیرا ٹنکوریا کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس شہر میں یوشینو گاوا نامی دریا ہے جو زیر زمین بہتا ہے اور مٹی کو حرارت فراہم کرتا ہے۔

ان پودوں سے حاصل ہونے والا نیلا رنگ سنہ 1600 سے مقبول ہونا شروع ہوا۔ اس سے قبل جاپان کا سمورائی قبیلہ اس رنگ کو عام استعمال کرتا تھا۔

دراصل اس نیلے رنگ سے جب کاٹن کو رنگا جاتا تھا تو وہ کاٹن سخت ہوجاتا تھا، یہ کپڑا دیگر کپڑوں کی نسبت بدبو اور دھول مٹی سے کم خراب ہوتا تھا۔ چنانچہ سخت مشقت کرنے والے اور سخت جان سمورائیوں کے لیے یہ ایک پسندیدہ رنگ تھا۔

پودوں سے حاصل ہونے والا یہ نیلا رنگ جسم کے مختلف زخموں کو بھی جلد مندمل کردیتا تھا کیونکہ یہ رنگ زخم کو مختلف بیکٹریا سے محفوظ رکھتا تھا۔

یہ رنگ اس وقت فائر فائٹرز کے لباس کا بھی رنگ تھا، کیونکہ (خالص) نیلا رنگ 1500 ڈگری فارن ہائیٹ کے شعلوں سے بھی بچا سکتا ہے۔

تاہم اس رنگ کا حصول اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

اس رنگ کو حاصل کرنے کے لیے مخصوص پودے کے پتوں کو پودے سے الگ کیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ ان پتوں کو ہر تھوڑی دیر بعد پلٹ کر دھوپ لگانی ضروری ہوتی ہے۔

اچھی طرح دھوپ میں رہنے کے بعد ان پتوں کا رنگ نیلا مائل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس سے رنگ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً 1 سال میں مکمل ہوتا ہے۔

اس رنگ کو حاصل کرنے میں درپیش محنت اور طوالت کی وجہ سے اب اس رنگ کے لیے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مارکیٹ میں اصل رنگ کی مانگ کم ہوئی تو اس کی افزائش سے وابستہ کسانوں نے بھی ان پودوں کو اگانا چھوڑ کر کوئی دوسرا ذریعہ معاش تلاش کرلیا۔

ٹوکو شیما میں اب گنتی کے صرف 5 کسان ہیں جو ابھی بھی اس پودے کی افزائش کر رہے ہیں۔

اس رنگ سے کپڑوں کو رنگنا بھی کوئی آسان کام نہیں، رنگ سازوں کو اس رنگ میں رنگی ایک شے تیار کرنے میں کم از کم 10 دن لگ جاتے ہیں۔

طویل عرصے تک اس رنگ سے کھیلنے کے بعد زیادہ تر رنگ سازوں کے ناخن بھی مستقل اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

خالص اور کیمیکل ملے رنگ میں کیا فرق ہے؟

یہ بات تو طے ہے کہ جب کوئی شے خالص اور قدرتی اشیا سے تیار کی جاتی ہے تو اس کی الگ ہی چھب ہوتی ہے۔

اس رنگ کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کیمیکل والے رنگ سے جب کپڑے کو رنگا جاتا ہے تو وہ اسی وقت خوبصورت معلوم ہوتا ہے، اور کچھ عرصے بعد اس کی یہ خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔

اس کے برعکس اصل رنگ سے رنگی اشیا کی خوبصورتی وقت کے ساتھ نکھر کر آتی ہے اور یہ دیرپا بھی ہوتی ہے۔

ایک ماہر رنگریز پودوں سے حاصل کیے گئے نیلے رنگ سے مختلف شیڈز تخلیق کر سکتا ہے، وہ اسے سیاہی مائل نیلا بھی بنا سکتا ہے، اور سمندر جیسا پرسکون نیلگوں بھی۔

کیا آپ یہ خالص رنگ پہننا چاہیں گے؟

Comments

- Advertisement -