چونیاں: اے آر وائی نیوز کے پروگرام ذمہ دار کون کی ٹیم نے قصور کی تحصیل چونیاں میں اسسٹنٹ کمشنر عدنان بدر کے ہمراہ گھروں میں قائم غیر قانونی فیکٹریوں پر چھاپے مار کر نمکو پاپڑ کے نام پر بچوں میں بیماریاں بانٹنے کا دھندا بے نقاب کر دیا۔
بچے والدین سے پیسے لے کر باہر قائم دکانوں سے مختلف اشیا خرید کر شوق سے کھاتے ہیں، انھی میں سے مختلف مشہور برانڈز کے نام پر نمکو پاپڑ بھی بچوں کی پسندیدہ کھانے کی چیزوں میں شامل ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بچوں کو نمکو، پاپڑ کے نام پر کیا کھلایا جا رہا ہے؟
ذمہ دار کون کی ٹیم کے آپریشن میں انکشاف ہوا کہ گھروں میں قائم غیر قانونی فیکٹریوں میں انتڑیوں اور چربی سے کشید کوکنگ آئل میں پاپڑ تلے جاتے ہیں۔ آلودہ ماحول، ناقص اجزا، مضر صحت کیمیکل اور زنگ آلود مشینری کے ساتھ پیسے کے لالچ میں اندھا مافیا بچوں میں بیماریاں بانٹنے لگا ہے۔
گھروں میں قائم فیکٹریوں پر چھاپے کے دوران دیکھا گیا کہ بوریوں کے اندر نہایت ناقص اور خراب پاپڑی رکھی گئی ہے، جن سے مختلف ناموں سے نہایت غیر معیاری پاپڑ بنایا جاتا ہے، اور جو ہمارے بچے شوق سے کھا جاتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ان فیکٹریوں کے پاس نہ لائسنس ہے نہ اجازت، لوگوں نے گھروں کے اندر نمکو پاپڑ کے پروڈکشن یونٹ بنا رکھے ہیں، ایسے حالات میں بچوں کی صحت سے کھیلنے والا یہ بے رحم مافیا انتظامیہ کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے، کیوں کہ گلی گلی بیماریاں پھیلانے والی یہ فیکٹریاں قائم ہیں۔
انتظامیہ ان یونٹس کے خلاف ایکشن بھی لے چکی ہے، گھر میں بنی ایک فیکٹری کو فوڈ اتھارٹی نے سیل بھی کر دیا تھا لیکن فیکٹری مالک نے سیل توڑ کر پھر کام شروع کر دیا، جہاں مشہور برانڈ کے ریپرز میں نمکو پاپڑ پیک کر کے فروخت کیے جاتے ہیں۔
ذمہ دار کون کے آپریشن کے بعد صحت کے اصولوں کو پامال کرنے والے تمام پروڈکشن یونٹس سیل کر دیے گئے، پروگرام میں دکھایا گیا کہ کس طرح انتہائی گندے اور غلیظ ماحول میں بچوں کے لیے نمکو پاپڑ تیار کیے جا رہے تھے، جس کڑاہی میں تلے جا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کیچڑ میں پاپڑ تلے جا رہے ہوں۔
اسسٹنٹ کمشنر چونیاں عدنان بدر نے اس موقع پر کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ ایک گھر کے اندر جہاں ایک طرف کپڑے دھلتے ہیں وہاں پاس ہی بچوں کو کھلائے جانے والے پاپڑ بنانے کی بھٹی لگائی گئی ہے، یہی چیزیں بازاروں میں سپلائی ہوتی ہیں جہاں پھر بچے انھیں خرید کر کھاتے ہیں۔
انھوں نے کہا والدین مضر صحت اشیا کا بائیکاٹ کریں، اور بچوں کو سستی نہیں معیاری اشیا کھلائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قصور کی تحصیل چونیاں میں بچوں کی تعداد تقریباً 9 لاکھ ہے، جب کہ اسکول جانے اور مختلف جگہوں میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد تقریباً 4 لاکھ ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیماریاں بانٹنے والا مافیا کس وسیع سطح پر ہمارے نئی نسل کو بیمار بنا رہے ہیں۔