دنیا بھر میں 40سال سے زائد عمر کا ہر 10 میں سے ایک شخص ذیابیطس کا شکار ہے،20 سال کے دوران ان اعداد و شمار میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2030 تک تقریباً مزید 55 لاکھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ایسی لاعلاج بیماری ہے جو ایک بار لگ جائے تو زندگی بھر جان نہیں چھوڑتی، تاہم چینی سائنسدانوں نے ذیابیطس کے علاج کے لیے نیا علاج ایجاد کر لیا ہے۔
اس حوالے سے تیانجن فرسٹ سنٹرل اسپتال اور پیکنگ یونیورسٹی کے محققین نے ذیابیطس کے علاج سے متعلق ایک اہم پیش رفت کی ہے، یہ نئی ٹیکنالوجی لاکھوں لوگوں کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔
مذکورہ تحقیق کے نتائج معروف جریدے سیل میں شائع ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں نے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے ٹائپ ون ذیابیطس کے علاج کے لیے اس نئے علاج کا اعلان کیا۔
یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار سے کسی مریض کو انسولین کی ضرورت کے بغیر قدرتی طور پر خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔
اب تک آئیلیٹ سیل ٹرانسپلانٹیشن ہی ٹائپ 1 ذیابیطس کے علاج کے لیے ایک امید افزا طریقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لبلبہ کے خلیے، جو انسولین اور گلوکاگن جیسے اہم ہارمونز پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں، خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس عمل میں مرنے والے عطیہ دہندگان سے آئیلیٹ سیلز کو اکٹھا کرنا اور ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کے جگر میں ٹرانسپلانٹ کرنا شامل تھا۔ تاہم، عطیہ دہندگان سے خلیات کی محدود دستیابی کی وجہ سے، علاج کبھی بھی وسیع پیمانے پر استعمال میں نہیں رہا۔
چینی سائنسدانوں کی تیار کردہ نئی اسٹیم سیل ٹیکنالوجی ذیابیطس کے علاج میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ یہ عمل ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا مریضوں سے چربی کے خلیات کو ہٹانے سے شروع ہوتا ہے۔
یہ خلیے کیمیکل ری پروگرامنگ سے گزرتے ہیں اور پلیوری پوٹینٹ اسٹیم سیل بن جاتے ہیں اور اس کے بعد وہ آئیلیٹ سیلز میں تبدیل ہو جاتے ہیں چونکہ خلیے مریض کے ہی جسم سے آتے ہیں، اس لیے مدافعتی ردعمل کا خطرہ کم سے کم ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں نے ایک بزرگ مریض کی کامیابی سے سرجری کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق سرجری میں صرف 30 منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ اس مریض کے پہلے دو جگر کے ٹرانسپلانٹ اور ایک ناکام آئیلیٹ ٹرانسپلانٹ ہوا تھا۔
تاہم اسٹیم سیل کے طریقہ کار کے بعد، اس نے ڈرامائی بہتری دکھائی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 75 دنوں کے اندر اس شخص کے انسولین کے انجیکشن کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔ ڈھائی ماہ کے اختتام پر اس کے خون میں شکر کی سطح 98فیصد سے زیادہ کنٹرول ہوگئی۔