تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

سراج درانی کے خلاف نیب کا کیس بہت مضبوط ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کی درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس عائشہ ملک کی سربراہی میں ہوئی۔

اس موقع پر اسپیکر سندھ اسمبلی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل سراج درانی مالدار گھرانے سے ہیں ان کے لیے اثاثے بنانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ نیب نے سراج درانی کی آمدنی کا حساب سال 2007 سے لگایا، سراج درانی نے ٹیکس گوشوارے 2007 سے جمع کرانے شروع کیے تھے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا مطلب آمدن صفر ہونا نہیں ہوتا، سراج درانی اور ان کے اہل خانہ 1985 سے 900ایکڑ کے وارث ہیں۔

اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سراج درانی نے1985 سے2008 تک کتنا پیسہ کمایا؟ حیران کن بات ہے2008 تک پیسہ کماتے رہے اور یکدم خرچ کرنا بھی شروع ہوگئے؟ سراج درانی پیسہ جمع کرتے رہے توعلم ہوگا کہ کتنےجمع کیے اور کتنے خرچ کیے؟

اس کے جواب میں ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ آغا سراج درانی نے 4کنال کے دو گھر 1998 میں فروخت کیے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فروخت کیے گئے گھروں کی مالیت کا بھی تو علم نہیں ہے۔

وکیل اسپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا تھا کہ سراج درانی کے پاس کئی سو تولہ سونا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سونا خریدنا سرمایہ کاری نہیں ہوتی، امیر لوگ سونا پیسے کی سکیورٹی کے لیے خریدتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ امیرلوگ تو شادیوں میں بھی کلو کے حساب سے سونا ڈالتے ہیں، بظاہر سراج درانی کے خلاف نیب کا کیس بہت مضبوط ہے، رکن اسمبلی بننے کے بعد سراج درانی کے اثاثوں میں تیزی سےاضافہ ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گھر کو جیل قرار دینے کا مطلب ہے کہ سراج درانی بہت بااثر شخصیت ہیں، ملک کا نظام ایسا ہے جو بااثر افراد کو مکمل سہولت دیتا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سراج درانی کو ضمانت نہ دیں تو بھی وہ گھر میں ہی ہیں، نیب کو سراج درانی کے جیل جانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ نیب ٹرائل مکمل ہونے تک سراج درانی کے اثاثے منجمد کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سراج درانی کا نام ای سی ایل میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے، امریکا میں کرپشن ملزمان کو ٹریکر لگایا جاتا ہے تاکہ نظر رکھی جاسکے۔

عدالت نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کل تک سوچ کر مؤقف سے آگاہ کرے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے تک کییے مؤخر کردی۔

Comments

- Advertisement -